ڈاکٹر ایم اعجاز علی (سابق ممبرپارلیمنٹ راجیہ سبھا)
اب تک جو رزلٹ دیکھا گیا ہے اس کے حساب سے اترپردیش اور بہار کے عوام کا ووٹ ہی دراصل وزیراعظم کی کرسی کا مالک ہے۔ یہ جسے چاہے اسے اس کرسی پر بٹھادے اور جسے نہ چاہے اسے ایک جھٹکے میں بے دخل کردے۔ لہذا ان دونوں ریاستوں میں ووٹ بہت سوچ سمجھ کے بعد ہی پڑتا چلا آرہا ہے۔ بہار میں تو الیکشن ہوا، جس میں دوبارہ این ڈی اے کی حکومت تشکیل ہوئی اور نتیش کمار کو پھر سے وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ گزشتہ حکومت سے اس مرتبہ کی حکومت میں فرق اتنا ہے کہ بھاجپا بڑی پارٹنر بن گئی اور نتیش کمار کمزور وزیراعلیٰ کی حیثیت سے کرسی پر بیٹھے۔ اب یوپی کی باری ہے۔ گرچہ یہاں بہوجن سماج پارٹی، کانگریس اور اویسی برادران بھی میدان میں کھڑے ہیں اور یوگی جی کو وزیراعلیٰ کی کرسی سے بے دخل کرنے میں سیاسی طاقت جھونکے ہوئے ہیں، لیکن سیاسی ماحول تو یہی دکھا رہا ہے کہ مقابلہ بی جے پی (این ڈی اے) اور سماج وادی پارٹی اتحاد کے درمیان ہی ہوناہے۔ اسی طرح یہ بھی طے ہے کہ اس مرتبہ بھی اترپردیش کا الیکشن ’کمیونل ایشوز‘ پر ہی ہوگا۔ نہ تو یوگی جی ’ہندو-ہندو‘ کرنے سے پیچھے ہٹیں گے اور نہ ہی اویسی برادران ’اے مسلمانو……‘ کہنے سے باز آئیں گے۔ ان دونوں گروپ کے نعرے بازی کے بیچ مہنگائی، بے روزگاری، بدحالی، غریبی، بدعنوانی اور جرائم کے اٹھتے گراف کو کنٹرول تو نہیں کیا جاسکتا ہے۔ البتہ آپسی اتحاد، مذہبی رواداری اور ملک کی بنیادی ترقیات کا گراف دن بدن نیچے کی ہی طرف جاتا ہے۔ اس میں بھی مذہبی رواداری وسماجی یکجہتی وہ فیکٹر ہے جس میں درار پڑجائے تو سنبھالنے میں صدیاں گزرجاتی ہیں۔
یاد کیجئے کہ 1857ء کی پہلی جنگ آزادی کے بعد دو قومی نظریہ کی جو آگ بنکم چٹرجی (آنندمٹھ کے ذریعہ) ہندومہاسبھا، مسلم لیگ اور آر ایس ایس نے آپسی ٹکراؤ کے نام پر بھڑکائی کیا وہ آج تک بجھ سکی۔ بلکہ اور بڑھتی چلی گئی اور اتنی بڑھی کہ اب تو دھرم سنسدوں کے ذریعہ کھلے عام دھمکیاں دی جانے لگی ہیں۔
بہرحال مسلمانوں کی سمجھ داری یہی ہونی چاہیے کہ ٹکراؤ کی سیاست سے اسی طرح منھ پھیرلیں جیسے حرام چیز یا گندگی کو دیکھ کر منھ موڑ لیتے ہیں۔ اقتدار میں حصہ داری لینے سے ہم روکنا نہیں چاہتے ہیں کیوں کہ جمہوریت میں حصہ داری تو چاہیے ہی لیکن چیلنج یا ٹکراؤ سے نہیں بلکہ میل ملاپ سے حاصل کریں۔ اس کام میں پہل بھی مسلمانوں کو ہی کرنا ہوگا۔ سنگھ پریوار تو ہر موقع اور ہر ایشو پر مسلمانوں کو چھیڑے گا اور جان بوجھ کر ٹکراؤ کے لیے اکسائے گا۔ وہ جانتا ہے کہ زیادہ تر مسلم سربراہان جذباتی یعنی ’سنکی‘ ہوتے ہیں۔ ان کے جذبات کو ذرا سا چھیڑنے پر وہ سخت سے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہیں اور ان کے اسی ردعمل کو وہ اسلام کا چہرہ بناکر اپنی سماج کو خبردار کرتے ہیں۔ جب کہ ایسی بات نہیں ہے۔ اسلام تو ’حکمت انقلاب‘کا نام ہے۔ یہاں تو ’سنک‘ اور ’انا‘ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ لیکن اللہ نے ہندوستان کی سرزمین پر مسلمانوں کو حکومت کرنے کا 800 برسوں تک موقع کیا دیا کہ یہاں کے مسلمانوں کا ذہن صرف حکومتی ہوکر رہ گیا۔ اسلام کے سماجی مشن کو خارج کرکے صرف اقتدار کی حصولیابی ہی مسلم سربراہوں کا اوڑھنا بچھونا ہو کر رہ گیا ہے،جو کسی بھی حساب سے آج کے ماحول کے موافق نہیں ہے۔ سیاسی حساب سے مسلمانوں کو اب ’سماجی انصاف‘ کے حامیوں کے حمایتی بن کر رہنے میں ہی فائدہ ہے۔ انہوں نے اپنی طرف سے کچھ حصہ داری دے دی تو ٹھیک اور نہیں دی تو بھی ٹھیک، لیکن انہیں سے لڑ کر ’سماجی انصاف‘ کی تحریک کو کمزور کرنے میں نقصان ہی نقصان ہے اور ہر حساب سے نقصان ہے۔ ان کے ساتھ رہ کر ہی ہم ہندوستان کے ماحول کو مذہبی رواداری کی طرف پھر سے موڑ سکتے ہیں۔ نفرت کی بنیاد پر برادران وطن سے الگ ہونے کے بجائے ان کے ساتھ انہیں کے بھیس وبول چال میں رہ کر انہیں اپنے شرعی عملوں سے رب العالمین، رحمت اللعالمین، اور دستور العالمین (قرآن حکیم) کے بارے میں جانکاری دینا ممکن ہے اور جو ہمارے کاندھوں پر دی گئی ذمہ داری ہے۔
یاد رکھئے سنگھی جماعت ’سماجی انصاف‘ کے خلاف ہے وہ تو’کمیونل انصاف‘ (مذہبی انصاف) کے نام پر تفریق پیدا کرکے مذہبی رواداری کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات جب کہ قابل غور ہے کہ ہندوستان میں ’کمیونل انصاف‘ کوئی ایشو ہی نہیں ہے۔ ہندوستانی آئین کے مطابق اور پہلے سے بھی مذہب کے نام پر کسی بھی ٹکراؤ کا یہاں کوئی کھیل نہیں رہا ہے۔ سیاسی غلبہ دکھانے کے لیے صاحب اقتدار نے مذہب کے نام پر جو کھیل کھیلنا شروع کیا ہے یہ اسی کا اثر ہے کہ مذہب کے نام پر دنگے فساد ہونے لگے ہیں اور یہ کرسی حاصل کرنے کا اب آسان فارمولہ بن گیا ہے۔ ’کمیونل انصاف‘ کی تحریک کو ختم کرنے اور ’سماجی انصاف‘ کی لہر کو بڑھاوا دینے کے لیے ہمیں ہی اپنی حکمت کو بدلنی ہوگی۔ سماجی طور پر اپنے مزاج سے علیحدگی ختم کرنے کے ساتھ سیاسی کھیل میں ایسے ایشوز کو مضبوطی سے پکڑنا ہے،تاکہ برادران وطن کا بھی ساتھ ملے۔
مثلاً مہنگائی، بیروزگاری، غریبی، بدحالی، کمزوروں کا استحصال،شراب نوشی، بدعنوانی، جرائم، سیلاب، خشک وغیرہ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے کہ ہندوستانی مسلمان مسائل سے گھرا ہوا ہے۔ تحفظ، تجارت (روزی روٹی) اور تعلیم ان کے اہم مسائل ہیں،لیکن ان چیزوں کو جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی فی الوقت انہیں ابھارنے کے بجائے ہندوستان کے دلت وپسماندہ سماج کو زیادہ ابھارنا چاہئے۔ روایتی طور پر جکڑے ہوئے برہمنوادی نظام میں برادران وطن کو پسماندہ اور دلت طبقات ہی ایک طاقت کے طور پر ابھرے ہیں اور یہ اوپری طبقات کے برادران وطن کو ہضم نہیں ہوپارہا ہے۔ ہندوستان میں اصل مقابلہ تو اعلیٰ ذات واچھوت (دلت) کے درمیان کا ہے (کمنڈل بنام منڈل) جس میں اچھوتوں کا ساتھ دینے میں ہی فی الوقت مسلمانوں کا بھلا ہے۔ کمنڈل بنام منڈل کی لڑائی مضبوطی سے جاری رہے۔ یہی ہمارا نشانہ ہونا چاہئے۔ اچھوتوں کے ساتھ اتحاد ہی مسلمانوں کے عام مسائل (تحفظ، تجارت، تعلیم) کے حل کا راستہ نکل سکتاہے،ورنہ ٹکراؤ کی سیاست تو اب تیزی سے میانمار جیسی صورت حال کی طرف لے کر چلی جائے گی۔ہمارے سربراہان کو اس بات کی غلط فہمی ہے کہ دنیا میں 50 سے زائد مسلم ممالک ہیں اس لیے ہندوستان میں ہمیں سیاسی برابری ملنا چاہئے اور اسی کے لیے موقع ملتے ہی چیلنج بھی کیا جاتا ہے، لیکن ہماری تو صلاح یہی ہے کہ عام مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے اپنے اس رویہ کو خیرباد کہہ دیں۔ انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پڑوسی ملک میانمار میں جو کچھ ہوا وہ وہاں کے مسلم سربراہوں کی غلط پالیسی کے سبب ہوا ہے۔ ان کے ٹکراؤ کی سیاست اور علیحدہ پسندی کے مزاج کے ’بھکت بھوگی‘ میانمار کے عام مسلمان ہوئے جنہیں وہاں سے بھاگ کر دوسرے ممالک خاص طور سے بنگلہ دیش جانا پڑا اور جہاں وہ بنجاروں کی زندگی گذارنے کومجبور ہیں۔
اس مضمون کے ذریعہ ہم یوپی کے مسلمانوں کو یہی مشورہ دینا چاہتے ہیں کہ وہ کمنڈل سے الگ ہونے والے منڈلیوں مثلاً سوامی، دارا اور راج بھر کے درد کو سمجھیں کہ اترپردیش میں وزیراعلیٰ کی کرسی سے یوگی جی کو ہٹانا دراصل کیوں ضروری ہے اور سماج وادی اتحاد کو مضبوط کرنا کیوں ضروری ہے۔ یوپی کے مسلمانوں کوبنگال کے طرز پر ہی ووٹنگ کرنی چاہئے اور وہ بھی خاموشی کے ساتھ اور جب تک سماج وادی اتحاد کو حکومت بنانے تک کا رزلٹ نہ مل جائے تب تک ہر قدم پر حکمت کے ساتھ چلنا ہے،کیوں کہ سنگھ پریوار اترپردیش میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دے گا۔ سنگھ جانتا ہے کہ ’یوپی تو دہلی‘ ہے۔ حالانکہ مایاوتی جی، اکھلیش یادو سے سینئر ہیں اور دنگے فساد پر زیادہ کنٹرول رکھنے کا ان کا ریکارڈ ہے، لیکن فی الوقت ان کی ہوا کمزور لگتی ہے، اس لیے ہندوستان کو سنگھیوں سے آزاد کرانا ہے تو یوپی کو یوگی جی کے چنگل سے چھڑانا ہوگا۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ اس الیکشن میں مسلمانوں کو عقلمندی سے کام لیتے ہوئے اکھلیش یادو اور ان کے معاونین کو یکطرفہ ووٹ دے کر کامیابی سے ہمکنار کرانا ہوگا۔ کسی بھی صورت حال میں اس مرتبہ بی ایس پی، کانگریس، اتحادالمسلمین، پیس پارٹی یا راشٹریہ علماء کونسل کے چکر میں پڑنا ہی نہیں ہے۔ ہر مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی سنگھ پریوار بوتھ مینجمنٹ میں اپنی ساری طاقت جھونک دے گا۔ ہمیں چاہئے کہ پلاننگ کے ساتھ ووٹ اس طرح دیں کہ سنگھ پریوار کو پتہ تک نہ چلے کہ مسلمانوں کا ووٹ کس طرف جارہاہے۔ حکمت عملی سے اگر ہم سنگھ پریوار کو بوتھ پر بھی اس غلط فہمی میں دوبار لکھیں کہ مسلمانوں کا ووٹ بکھر گیا ہے تو یہ سب سے بہتر ہوگا جبکہ اندرونی طور پر ووٹ کو قطعی بکھرنے نہ دیں۔ بہار میں مسلمانوں نے ایسا کیا ہے تبھی تو آج تک بھاجپا کا غلبہ نہیں ہوسکا، ورنہ گزشتہ اسمبلی الیکشن میں تو سنگھ پریوار نے اتنی مضبوط گھیرابندی کی تھی اور اتنی طاقت جھونکی تھی کہ ’سماجی انصاف‘ کا مکمل صفایا ہی ہوجاتا۔ ایسا لگتا ہے کہ اسدالدین اویسی بھی سنگھ پریوار کی مدد میں ہی لگے ہوئے تھے لیکن یہاں کے مسلمانوں نے بہت حکمت سے کام لیا اور سماجی انصاف کی بچی ہوئی طاقت کو بچاکر رکھا۔
(یہ مضمون نگار کی ذاتی رائے ہے، اس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)