Urdu News

اسرائیل: چہرے پہچاننے والے باڈی کیمرا کی متنازعہ ٹیکنالوجی تیار کرنے میں مصروف

اسرائیل: چہرے پہچاننے والے باڈی کیمرا کی متنازعہ ٹیکنالوجی تیار کرنے میں مصروف

تل ابیب،31جنوری(انڈیا نیرٹیو)

سابق اسرائیلی کرنل ڈینی تِرزا کا کہنا ہے کہ ان کی یوزموٹ لمیٹڈ نامی کمپنی ایسے باڈی کیمرے تیار کر رہی ہے، جس کی مدد سے پولیس ہجوم بھی مشتبہ افراد کو فوراً پہچان سکے گی، ''چاہے کسی شخص نے چہرے پر ماسک بھی پہنا ہو۔“ عمومی طور پر ایسے کیمروں کا استعمال پولیس اہلکار کرتے ہیں۔

 یہ کیمرے ان کی وردی پر لگے ہوتے ہیں، جو کسی بھی ملزم کی گرفتاری کے عمل کو ریکارڈ کرتے ہیں تاکہ بعد ازاں اس ویڈیو کی مدد سے شواہد کو پرکھا بھی جا سکے۔سکیورٹی نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے فیشل ریکگنیشن یعنی چہرے کی شناخت کرنے کی ٹیکنالوجی کے استعمال پر عالمی سطح پر تنقید کی جاتی ہے۔ امریکی ٹیکنیکل کمپنیاں پولیس کو یہ ٹیکنالوجی فراہم کرنے سے ہچکچاتی ہیں کیونکہ اس سے پرائیوسی یا نجی معلومات کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ تاہم تِرزا کی طرح دیگر افراد اس ٹیکنالوجی کی مدد سے جرائم پیشہ اور لاپتہ افراد کا سوراغ لگانے کی صلاحیت پر زور دیتے ہیں، ''اس سے پولیس کو بروقت معلوم ہو جائے گا وہ کس کا سامنا کر رہے ہیں۔“

مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادی میں رہنے والے تریسٹھ سالہ تِرزا نے فرانسیسی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ وہ بہت جلد تل ابیب میں واقع 'کورسائٹ اے آئی‘ نامی کمپنی کی ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کردہ یہ باڈی کیمرے استعمال کیے جا سکیں گے۔ ان کیمروں کی مدد سے ہجوم میں بھی مطلوبہ لوگوں کی شناخت کی جاسکتی ہے، چاہے کسی نے ماسک پہنا ہو، یا پھر چہرے پر میک اپ کیا ہو۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے کئی دہائیوں پرانی تصویر سے بھی انسانوں کی شناخت کی جاسکتی ہے۔ تِرزا کا کہنا ہے کہ ابھی تک ان کی کمپنی یوزموٹ اور کورسائٹ کے درمیان شراکت داری کا کوئی معاہدہ طے نہیں ہوا سکا ہے۔کورسائٹ کے سی ای او راب واٹس نے کسی قسم کی تفصیلات یا معاہدے کی تصدیق کیے بغیر بتایا کہ ان کی کمپنی دنیا بھر میں ایسے دو سو تیس 'گروپس‘ کے ساتھ کام کر رہی ہے جنہوں نے فیشل ریکگنیشن کا سافٹ ویئر کیمروں میں شامل کروایا ہے۔

واٹ کے مطابق اس ٹیکنالوجی کے ذریعے مختلف کام لیے جاسکتے ہیں، جیسے کہ گاہکوں کا ڈیٹا بیس تیار کرنا، کمپنی کے کون سے ملازمین دفتر کی عمارت میں داخل ہوسکتے ہیں، یا پھر اسٹیڈیم میں ٹکٹ کے ساتھ ہی لوگ داخل ہونا، اور پولیس کے لیے مشتبہ اور مفرور افراد کی تلاش۔ انہوں نے بتایا کہ آسٹریلوی اور برطانوی پولیس پہلے ہی اس ٹیکنالوجی کے آزمائشی نمونے پر کام کر رہی ہیں۔مارکٹ ریسرچ کمپنی مورڈور انٹیلیجینس کے تخمینے کے مطابق چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کی صنعت کی مالیت سن 2020 میں تقریبا تین اعشاریہ سات ارب ڈالر تھی، جو کہ سن 2026 تک گیارہ اعشاریہ چھ ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔

فیس بک، مائیکروسافٹ، ایمیزون، اور آئی بی ایم نے پہلے ہی سکیورٹی اداروں کو فیشل ریکگنیشن کے پروگرام فروخت کرنے پر عارضی یا مستقل پابندی عائد کر رکھی ہے۔فرانس نے گزشتہ ماہ 'کلیئر ویو اے ا?ئی‘ نامی امریکی کمپنی کو اپنے شہریوں سے منسلک ڈیٹا کو حذف کرنے کا حکم دیا۔ فرانسیسی اداروں کے مطابق انٹرنیٹ سے جمع کی گئی تصاویر کی مدد سے چہروں کی شناخت کا ڈیٹا تیار کرنا پرائیویسی کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔اس کے جواب میں راب واٹس کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی انسانی حقوق اور اخلاقیات کے بنا پر چین، روس یا پھر میانمار کو یہ ٹیکنالوجی نہیں فروخت کرے گی۔ ''ہم فیشنل ریکگنیشن کو ایک مثبت قوت کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔“

Recommended