تسنیم فردوس
بٹلہ ہاوس، جامعہ نگر نئی دہلی
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
مرزا اسد اللہ خان غالب شاید ہی ایسا کوئی شخص ہوگا جو اس نام سے واقف نا ہو۔ اردو شاعری میں مرزا غالب کی حیثیت ایک درخشاں ستارے کی سی ہے۔ غالب نے اپنے کمالِ فن سے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اسے نئے نئے موضوعات بخشے اور اردو ادب میں ایک انقلابی لہر دوڑا دی۔ غالب نے اردو غزل گوئی میں اپنا الگ مقام بنایا۔ وہ دوسروں کی راہ پر چلنے سے کتراتے رہے۔ غالب کا ماننا تھا کہ "دوسروں کے پیچھے چلنے سے آدمی اپنی منزل کھو دیتا ہے۔ اس لیے جس راستے سے کارواں گزرا ہے اس راستے پر چلنا پسند نہیں کرتا"
۲۷دسمبر ۱۷۹۷غالب آگرہ میں پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے لڑکپن میں ہی شاعری لکھناشروع کی تھی لیکن زندگی کی تلخی نے انہیں زندگی بھر نہیں چھوڑا۔ انھیں اپنی زندگی کے اتار چڑھاؤ میں بھی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مالی پریشانیوں کے سبب مجبور ہوکر انھوں نے شاہی دربار میں نوکری کرلی۔ اور وہاں سے زندگی کی سوجھ بوجھ سنبھال لی۔ لیکن زندگی کے ظلم نے مرزا اسد اللّه خان غالب کو یتیم بنانے پر مجبور کر دیا اور والد کا سایہ ہاتھ سر سے کیا اٹھا کہ زندگی کی
ہر طوفان نے آن پکڑا جس سے غالب کی زندگی بہت بگڑی۔ ایک جگہ غالب نے خود کہا ہے کہ "جتنی بڑھتی گئی پیری میری شاعری پر جوانی آئی" اس پیری میں بھی غالب کا درد پوشیدہ ہے اور زندگی کے کٹھن حالات بھی۔
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یا رب کئی دیئے ہوتے
غالب نے اردو شاعری میں ایک نئی زندگی کا سانس لیا اور اسے زندگی کی گرمی عطا کی اور شاعری کے ساتھ انسانی نفسیات کو ملحوظ رکھا۔
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا
انیسویں صدی کے مرزا غالب ایک مشہور شاعر، ادیب اور نثر نگار تھے۔ آپ برِصغیر میں اردو اور فارسی میں ایک نئی روح پھونکنے کے لئے مشہور ہیں۔ غالب نے برِصغیر میں مسلمانوں کے زوال سے لے کر برطانوی حکمرانی تک پر آشوب دور کو دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ٹھوس تخیل، دیوالیہ پن، بینائی کی وسعت اور تمثیلوں کا واضح اظہار ہے۔ محبوب کی نازک مزاجی اور زندگی کی تمام تلخی اور پہلوؤں کو نہایت آسان انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ضرب المثال اور استعاروں کا استعمال آپ کے کلام کو چار چاند نصیب کرتا ہے۔
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
غالب ابتدا میں فارسی میں شاعری کرتے رہے بعد میں اردو شاعری کی۔ غالب
غالب کا اردو دیوان مختصر ہے لیکن اسے عالمی طور پر مقبولیت حاصل ہوئی۔ موضوعات اور اندازِبیان میں جدت، شوخی، ظرافت اور دیگر زبان وبیان کی خوبیاں انھیں اردو کا ایک منفرد شاعر بناتی ہیں۔
تلاش مجھ کو نہ کر دشتِ رہبر میں غالب
نگاہِ دل سے دیکھ تیرے کتنا قریب ہوں میں
غالب کی تخلیقات میں دیوانِ غالب، دستنبو، قاطع برہان، میخانہ آرزو، سیادِچین، قادر نامہ، مکتبِ غالب اور نکہتِ غالب اور تاریخ ہندوستان پر بھی کتب شامل ہیں۔
غالب کا اصل حسن یہ تھا کہ وہ زندگی کی حقیقتوں اور انسانی نفسیات کو گہرائی سے سمجتے تھے اور اپنی شاعری میں عام لوگوں کو بڑی سادگی کے ساتھ ان کی وضاحت کرتے تھے۔ غالب ایک فلسفی ذہن کے مالک تھے۔ انھوں نے ذندگی کو اپنے طور پر سمجھنے کی بھر پور کوشش کی اور ان کے تخیل کی بلندی اور شوخی فکر کا راز اس میں ہے کہ وہ انسانی زندگی کے نشیب و فراز کو شدت سے محسوس کرتے ہیں۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
غالب انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ اس کے بنیادی معاملات ومسائل پر غور وفکر کرتے ہیں اس کی ان گنت گتھیوں کو سلجھا دیتے ہیں۔ انسان کو اس کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں۔ اس کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں۔ غالب کی شاعری اس اعتبار سے بہت بلند ہے اور شبہ نہیں کہ ان کی شاعری میں ان سب کا اظہار وابلاغ ہوا ہے۔ اور یہ عناصر ان کو عظیم بنانے میں برابر کے شریک ہیں۔
مرزا اسد اللّه خان غالب بلند پایہ شاعر اور بہترین نثر نگار ہیں۔ غزل گوئی ان کا امتیازی وصف ہے۔ شاعری ان کے وصف کی آواز رہی ہے۔ جس کی گونج دورِحاضر میں بھی سنائی دیتی ہے اور احساس دلاتی ہے کہ یہ آنے والے وقت کی بھی آواز رہے گی۔
مہربان ہوکے بلا لو چاہے جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آبھی نہ سکوں
وقت ان کی چمک کو دھندلا نہ سکی اسی لئے انہیں دوبینی مفکر اور فلسفی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔
مرزا غالب کی مقبولیت اب بھی اتنی ہی ہے جتنی پہلے تھی۔ دنیاۓادب کی تاریخ غالب کے خاص ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ وہ انیسویں صدی کے غیر معمولی ذہن، حاضر جواب، بذلہ سنج اور دور اندیش فکر شاعر تھے۔
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
غالب اپنے خطوط، قصیدوں اور غزلوں کے لیے خصوصی شہرت رکھتے ہیں۔
غالب کی غزلوں میں تہ داری پائی جاتی ہے۔ ان کے کلام کا بظاہر جو مطلب پہلی نظر میں فوری طور پر نظر آتا ہے اسکے علاوہ بھی اس کے معنی کے دوسرے پہلو بھی موجود ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تیسرا اور چوتھا پہلو بھی سمجھ میں آتا ہے اور یہ احساس ہوتا ہے کہ ہر پہلو اپنی جگہ درست ہے۔ یہ غالبٓ کی غزلوں کی بہت بڑی خصوصیت ہے۔
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
مرزا غالب ایک صاحبِ فکر شاعر تھے۔
غالب اس حوالے سے بھی مختلف ومنفرد ہیں کہ وہ خود سے بھی ہم کلام ہوتے ہیں۔ سوالات قائم کرتے ہیں اور سوالوں کو شعری پیکر میں ڈھالتے ہیں۔ اپنے قاری کو غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں۔ غالبٓ اپنے اطراف پھیلی ہوئی لامتناہی چیزوں کو من و عن قبول نہیں کرتے بلکہ سبزہ، کوہ، آبشار، تیز وتند ہوا، صحرا، آسمان اور اسکی بلندی، خدا کی قدرت سے متعلق سوالات قائم کرتے ہیں۔
سبزہ وگل کہاں سے آئے ہیں؟
ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے؟
غالب کی غزلوں کا بنیادی موضوع بھی غزل کی تعریف کی طرح عشق و محبت ہے۔ تاہم فرق صرف یہ ہے کہ غالب نے اس موضوع اور اسکے دائرے کو وسعت عطا کردی ہے۔ وہ محض عشقیہ جذبات، احساسات اور کیفیات پیش نہیں کرتے بلکہ اسمیں زندگی کو شامل کرتے ہیں۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
غالب نے اردو غزل کی روایت میں تصوف سے جو رمزوایمائیت پیدا کی اسے اپنے لۓشمع راہ بنایا۔ یوں انھوں نے سیاسی اور تہذیبی،معاشرتی موضوعات کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا اور انفرادی رنگ کے پردے میں اجتماعی تجربات کی تر جمانی کی۔
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
ان کی تمام تر تفصیلات کے ساتھ ان کی شخصیت کی کامل تصویر ان کے خطوط میں دیکھی جا سکتی ہے۔ غالب نے جس دور میں آنکھ کھولی وہ ایک ہنگامی دور تھا۔ ایک طرف پرانی تہذیب مٹ رہی تھی اسکی جگہ جدید تہذیب اور تعلیم اپنی جڑیں مضبوط کر رہی تھیں۔ یوں انتشار اور آویزش کے اس دور میں ان کی تشکک پسندی کو مزید تقویت ملی۔ انھوں نے زندگی کی بڑی بڑی اور گہرے مطالب کو رمزوایما کے پیرائے میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
غالب اردو میں پہلے شخص ہیں جس نے اپنے خطوط میں اپنی شخصیت کو بےنقاب کیا ہے۔ غالبٓ کی شخصیت گہری انفرادیت تھی وہ راہگیر نہیں تھے۔ وہ فطرت کے لحاظ سے ایک راہِ راست تھے۔ غالبٓ نے جس جدید نثر کی بنیاد رکھی تھی اس پر سرسید اور ان کے ساتھیوں نے ایک جدید اور مرئی عمارت تعمیر کی۔ سادگی نرمی، خلوص اور سادگیِ مجسم اور پیچیدہ انداز کے اظہار کے بجائے یہ ساری خوبیاں جدید نثر کی علامت ہے۔ غالب نے بغیر القاب وآداب کے آپسی گفتگو کی طرح خط لکھے جو بہت مشہور ہوۓ۔ان کے خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ غالب کو مزاح کا احساس تھا۔ اور یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ غالب وہ انسان ہیں جس کے نقشِ قدم زمین پر ٹکے ہوئےہیں۔ جس میں زندہ رہنے کی خواہش ہے۔
غالب نے اپنے خطوط میں اپنے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے اور اس طرح لکھا ہے کہ اگر اس مواد کو ترتیب دیا جائے تو اس سے غالب کی خودنوشت سوانح تخلیق ہوتی ہے۔ دہلی میں رہتے ہوئے غالبٓ اپنے دکھوں اور خوشیوں، خواہشات اور آرزوں، اپنی مایوسیوں اور ، شکستوں، خوشیوں کے ساتھ پایا جائے گا۔
رنج سے خو گر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آسان ہو گئیں
اردو کے عظیم شاعراور نثر نگار ۱۵فروری ۱۸۶۹کو دہلی میں انتقال کر گئے۔ اتنا زندہ دل اور ذہین شاعر اپنے عمر کے آخری برسوں میں حالات کی ستم ظریفی سے دو چار نظر آتا ہے۔کوئی مسافر سایہ دار درخت کی تلاش میں بڑھتا چلا جائے مگر اسے لا متناہی زمین اور اوپر آسمان کے سوا کچھ نہ دکھائی دینے لگا تھا۔
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟
لیکن جب تک اردو زندہ رہے گی تب تک ان کا نام امر رہے گا اور جب تک اردو شاعری زندہ رہے گی غالب ا نام غالب ہی رہے گا۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور