اقوام متحدہ کے دفتر میں جموں و کشمیر کی خواتین مظاہرین کا اظہارخیال
نوجوان لڑکیوں اور خواتین نے پیر کو سری نگر میں اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے احتجاج کیا اور افغانستان، پاکستان اور پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں مسلم خواتین کے لیے تعلیم کے حق کا مطالبہ کیا۔اقوام متحدہ کے حکام کو دیے گئے اپنے میمورنڈم میں، خواتین نے کہا کہ’’جب سے طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا ہے، لڑکیوں کے تمام اسکول اور تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں۔ بین الاقوامی مینڈیٹ کے تحت نافذ امن کی دو دہائیوں نے ہزاروں لڑکیوں اور ان کے خاندانوں کو امید کی کرن فراہم کی تھی کہ افغان لڑکیاں آخرکار بلا خوف تعلیم تک رسائی حاصل کر سکیں گی۔‘‘
جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں اقوام متحدہ اور دیگر کثیر الجہتی پلیٹ فارمز پر بہت زیادہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ اس پروپیگنڈے کے حامی اور خریدار آسانی سے جموں و کشمیر کی لڑکیوں کو ان کی بہنوں کے مقابلے میں تعلیمی مواقع کے وسیع فرق کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو کہ جموں و کشمیر کے ان حصوں میں ہیں جو غیر قانونی طور پر غیر ملکی قبضے میں ہیں۔ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر اور گلگت بلتستان آج افسوسناک طور پر تعلیمی محاذ پر پیچھے رہ گئے ہیں، ہماری بہنوں کو جدید اور سیکولر تعلیم کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔
میمورنڈم میں کہا گیا کہ گزشتہ برسوں کے دوران پاکستانی قیادت نے سیاسی تسلط کے ذریعے مذہبی قدامت پرستی کو پھیلانے کا سہارا لیا ہے۔"پاکستان کی آبادی کی ایک بڑی اکثریت کو صرف مدارس کے فروغ پذیر سلسلہ کے ذریعے مذہبی تعلیم تک رسائی حاصل ہے۔ تعلیم کو کٹرانہ خیالات سے نہیں باندھا جا سکتا اور طلباء کو علم کی وسیع وسعت کا حق حاصل ہے۔ پاک مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستانمیں جدید اسکولوں اور کالجوں کی عدم موجودگی نے ہماری بہنوں کو اس موقع سے محروم کر دیا ہے جسے ہم ہندوستان میں لینے آئے ہیں۔ صرف جموں و کشمیر میں ہی نہیں، ہمیں ہندوستان میں کہیں بھی اپنی پسند کے کسی بھی ادارے تک رسائی حاصل ہے۔ ہماری پرزور اپیل ہے کہ اقوام متحدہ لڑکیوں کی تعلیم کی ابتر حالت کا نوٹس لے، یہ حق تاریخ کی وجوہات کی بنا پر ان سے ظالمانہ اور زبردستی چھین لیا گیا ہے، جس کے لیے وہ ذمہ دار نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے ادائیگی کی جانی چاہیے۔