Urdu News

زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کی گہرائی کے شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب

زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کی گہرائی کے شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب

نجم الدولہ، دبیر الملک، مرزا نوشہ اسد اللہ خان غالب بہادر نظام جنگ (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ایک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ 19 ویں صدی غالب کی صدی ہے۔ جب کہ 18 ویں میر تقی میر کی تھی اور 20 ویں علامہ اقبال کی۔ غالب کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جا کر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کر دیتے تھے۔ غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔

عشق نے غالبؔ نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب

ہم بھی کیا یاد کر یں گے کہ خدا رکھتے تھے

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

غالب کے ان اشعار کو شاید کبھی فراموش نہ کیا جائے:

اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غاؔلب

ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے

بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے

قید حیات و بند غم، اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟

نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پروا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی

مرزا اسد اللہ بیگ خان غالب (1797ء- 1869ء) اردو زبان کے ایک عظیم شاعر ہی نہیں ایک ایسی عوامی شخصیت بھی تھے جن تک عام رسائی لوگوں کے لئے کبھی دشوار نہیں رہی۔

اپنے عہد کو اپنی صدی کی پہچان بنانے والے غالب کی اس انفرادیت کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔

غالب کو جس پرآشوب دور کا عینی شاہد بننا پڑا اس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ غالب کی شاعری میں تشکیک پسندی کا پہلو بہت اہم ہے۔ جو بحیثیتِ مجموعی غالب کی شاعری کے رگ و پا میں سرایت کئے ہوئے ہے۔ اس کی ایک وجہ غالب کا فلسفیانہ مزاج ہے۔ جب کہ دوسری وجہ وہ ماحول جس میں غالب نے آنکھ کھولی، وہ ایک ہنگامی دور تھا۔ ایک طرف پرانی تہذیب مٹ رہی تھی اور اس کی جگہ جدید تہذیب اور تعلیم اپنی جڑیں مضبوط کر رہی تھی۔ یوں انتشار اور آویزش کے اس دور میں اُن کی تشکیک پسندی کو مزید تقویت ملی۔

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

Recommended