Urdu News

خواتین کی حیثیت آج اور کل (یومِ خواتین پر خاص پیش کش)

تسنیم فردوس

تسنیم فردوس

جامعہ نگر،نئی دہلی

لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں

روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں

شیکسپیئر نے خواتین کے بارے میں کہا تھا کہ "اے عورت تو مجسمِ جلوہ گری ہے۔ اور دنیا پر بغیر فوج کے حکومت کرنا تیرا ہی کام ہے۔ دیکھا جائے تو ایثار و قربانی، ہمدردی ومحبت کے جذبے سے سرشار پیکر عورت ہی ہوتی ہے۔ 

آج جب کہ دنیا میں علم وادب کا بول بالا ہے۔ اس کے باوجود بھی عورت کی عظمت و رفعت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ ایک نمایاں حقیقت ہے کہ انسان کا وجود دو پہیوں پر قائم ہے"مرد اور عورت"نہ اکیلا مرد دنیا میں جی سکتا ہے اور نہ انسانی نسل کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ اسی طرح عورت کا معاملہ بھی ہے۔ اس بات سے قدرت کے اس قانون کی وضاحت ہوتی ہے کہ جنسی اعتبار سے دونوں کی اہمیت یکساں ہے۔ نہ کوئی بہتر ہے نہ کوئی کمتر۔

عالمی یومِ خواتین بین الاقوامی طور پر ٨مارچ کو منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد خواتین کی اہمیت سے آگاہ کرانا اور لوگوں میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کے لیے ترغیب دینا ہے۔ عالمی "یومِ خواتین" سب سے پہلے 28فروری کو 1909میں امریکا میں منایا گیا۔ اب برسوں سے 8مارچ کو عالمی سطح پر" یومِ خواتین" منایا جاتا ہے۔ چین، روس، نیپال، کیوبا اور بہت سے ممالک میں یہ دن بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی دن کو کسی کے نام سے بنا لینا کیا اس کے تمام حقوق ادا کر دیتا ہے۔۔۔۔؟

عورت ایک ایسی شے ہے جس کی حیثیت کے تعین میں ہر دور میں لوگوں نے اپنی ذہنی سوچ کو اعلیٰ دکھانے کی خاطر کوئی نہ کوئی شکل دینے کی کوشش کی ہے۔، یہاں تک کہ اس کو دیوی کا روپ دے دیا گیا ہے۔ اور کبھی اس کے عروج یا باعزت مقام کو برداشت نہ کرکے اس کو پستی کی انتہا تک پہنچا دیا گیا۔ 

مردوں اور عورت بہ حیثیت انسان کوئی امتیاز نہیں ہے۔ قدرت نے دونوں کو ایک جیسا جسم، ادراک اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ہے۔ اور ایک خوبصورت معاشرےکی تشکیل میں یکساں ذمداریاں بھی دی ہیں۔

طاقت وقوت کے معاملے میں بھی اگر خواتین کو موقع ملا ہے تو انھوں نے مردوں کے شانہ بشانہ پتھر بھی اٹھائے ہیں اور جنگیں بھی لڑی ہیں، حافظ قرآن، عالمات، معلّمات ۔۔۔۔۔۔جدید علوم کے میدان میں بھی ڈاکٹرس، انجینئر، سائنٹسٹ یہاں تک کہ ہوائی جہاز اڑانے کے فنون میں خواتین نے مردوں کے برابر کامیابی حاصل کی ہے۔ خواتین نہ صرف اپنا بلکہ اپنے ملک کا بھی نام روشن کر رہی ہیں۔ انسب کے باوجود خواتین کو وہ عزت و احترام نہیں دیا جاتا جسکی وہ مستحق ہیں۔ آجکل زنا بلجبر کے آۓدن ہونے والے واقعات نے لڑکیوں کو گھر میں قید ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ انسانی درندے نا بالغ اور معصوم بچیوں تک کو نہیں چھوڑتے، عصمت دری کا خوف بچیوں کی تمناؤں کا خون کردیتا ہے۔ 

سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم سب مذہب کے نام پر آگ اور پانی میں کودنے کو تیار ہیں خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ہو مگر خواتین کو احترام دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہندو دھرم میں عورت کو دیوی کا درجہ دیا گیا ہے تو اسلام نے ماں کے قدموں تلے" جنت " رکھ دی ہے۔ بیوی، بہن، اور بیٹی ان میں ہر ایک کو اعلیٰ مقام بخشا ہے۔ لیکن موجود دور میں روزانہ بیشمار خواتین ظلم و زیادتی اور ہوس کا شکار ہو رہی ہیں۔ ایک خاتون اپنے تمام رشتوں کو چھوڑ کر خوشی خوشی اپنے شوہر کے ساتھ چل دیتی ہے۔ لیکن مرد حضرات کا دل پھر بھی نہیں پگھلتا وہ دہیج کے نام پر اس مظلوم پر ظلم ڈھاتے  ہیں۔ بعض واقعات میں تو جان تک بھی لے لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ میں یہ پوچھتی ہونکہ یہ کیسا رواج ہے اور یہ کونسی ریت ہے جو ایک مرد کو اتنا مہنگا اور ایک عورت کو اتنا کم قدر بناتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟ 

مردوں کے لیے ہر ظلم روا، عورت کے لیے جینا بھی خطا 

مردوں کے لیے لاکھوں سیجین، عورت کے لیے بس ایک چتا

یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ اور تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اسوقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک معاشرے کی خواتین کی شمولیت نہ ہو۔ جس طرح ستون کو دیکھ کر کسی عمارت کی مضبوطی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اسی طرح قوم کی عظمت اور سربلندی کا اندازہ خواتین کی حیثیت دیکھ  کر با آسانی کیا جا سکتا ہے۔

شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشتِ خاک اسکی 

کہ ہر شرف ہے اس دُرج کا دُرِ مکنوں

مکالماتِ فلاطون نہ لکھ سکی لیکن

اس کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطون

Recommended