Urdu News

یہ تصور پیدا کیا گیا تھا کہ ہمیں باوردی اہلکاروں سے محتاط رہنا ہوگا

وزیر اعظم جناب نریندر مودی

 وزیر اعظم نے کہا کہ نوآبادیاتی دور میں داخلی سلامتی سے متعلق ابتدائی تصور نوآبادیاتی آقاؤں کے لیے امن و امان قائم رکھنے کے لیے عوام کے درمیان خوف پیدا کرنے پر مبنی تھا۔ اسی طرح، پہلے کا منظرنامہ مختلف تھا کیونکہ سلامتی دستوں کے پاس تیاری کے لیے کافی وقت ہوتا تھا، تاہم یہ صورتحال تکنالوجی ، نقل و حمل اور مواصلات کے شعبہ میں زبردست طور پر بہتری رونما ہونے کے ساتھ ہی اب یکسر طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج پولیس فورس کو بات چیت اور دیگر سافٹ اسکلز اپنانے کی ضرورت ہے جو کہ جمہوری منظرنامہ میں کام کاج کے لیے ضروری ہیں۔

انہوں نے پولیس اور سلامتی اہلکاروں کی شبیہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ عام معاشرے میں پولیس کی جو عکاسی کی گئی ہے، اس نے بھی اس سلسلے میں کوئی مدد نہیں کی ہے۔ انہوں نے وبائی مرض کے دوران پولیس اہلکاروں کے ذریعہ انسانی ہمدردی پر مبنی کیے گئے کاموں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ، ’’مابعد آزادی، ملک کے سلامتی نظام میں اصلاحات متعارف کرانے کی ضرورت تھی۔ یہ تصور پیدا کیا گیا تھا کہ ہمیں باوردی اہلکاروں  سے محتاط رہنا چاہئے۔ لیکن اب یہ تصور بدل چکا ہے۔ اب لوگ جب باوردی اہلکار کی جانب دیکھتے ہیں تو انہیں مدد کی یقین دہانی ہوتی ہے۔‘‘

وزیر اعظم نے نوکری کے تناؤ سے نمٹنے میں پولیس اہلکاروں  کے لیے مشترکہ خاندان کی جانب سے  گھٹتے تعاون کے نیٹ ورک کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے پولیس فورس میں یوگا ماہرین سمیت تناؤ سے نمٹنے اور راحت فراہم کرانے کے لیے  دیگر ماہرین کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے سلامتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے تناؤ سے مبرا سرگرمیاں وقت کی اہم ضرورت ہے۔‘‘

انہوں نے سلامتی اور پولیس کے کام کاج میں تکنالوجی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجرمین تکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں، انہیں پکڑنے کے لیے بھی تکنالوجی کوہی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تکنالوجی پر زور دینے سے اس میدان میں دیویانگ افراد کو بھی اپنا تعاون دینے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ گاندھی نگر علاقہ میں نیشنل لاء یونیورسٹی، رکشا یونیورسٹی اور فارینسک سائنس یونیورسٹی موجود ہیں۔ انہوں نے ان متعلقہ میدانوں میں ایک جامع علم پیدا کرنے کی غرض سے باقاعدہ طور پر مشترکہ سمپوزیئم کے ذریعہ ان اداروں کے درمیان بہتر تال میل پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ ’’اسے پولیس یونیورسٹی سمجھنے کی غلطی کبھی نہیں کرنا۔ یہ ایک رکشا یونیورسٹی ہے جو پورے ملک کی سلامتی کا خیال رکھتی ہے۔‘‘ انہوں نے مجمع اور بھیڑ کی نفسیات، بات چیت، تغذیہ اور تکنالوجی جیسے موضوعات کی اہمیت کا ازسر نو اعادہ کیا۔

انہوں نے طلبا سے اپیل کی کہ وہ انسانی اقدار کو ہمیشہ اپنی وردی کے اہم جزو کے طو رپر برقرار رکھیں اور اپنی کوششوں میں خدمات کا جذبہ کبھی کم نہ ہونے دیں۔ انہوں نے سلامتی کے شعبہ میں لڑکیوں اور خواتین کی بڑھتی تعداد کے بارے میں اطمیان کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ، ’’ہم دفاعی شعبہ میں بڑی تعداد میں خواتین کی شراکت داری ملاحظہ کر رہے ہیں۔ خواہ سائنس ہو، تعلیم ہو یا سلامتی، خواتین آگے آکر قیادت کر رہی ہیں۔‘‘

وزیر اعظم مودی نے ادارے کی تصوریت کو آگے لے جانے میں اس طرح کے کسی بھی ادارے کے پہلے بیچ کے کردار کو اجاگر کیا۔ انہوں نے ادویہ کے میدان میں ریاست گجرات کو قائد کے طور پر شناخت دلانے کے لیے گجرات میں واقع پرانے فارما کالج کے تعاون کا ذکر کیا۔ اسی طرح آئی آئی ایم احمد آباد نے ملک میں ایم بی اے کی تعلیم کا بہترین نظام قائم کرنے کے لیے نمایاں طور پر کام کیا۔

راشٹریہ رکشا یونیورسٹی (آر آر یو) پولیس ، فوجداری انصاف اور کریکشنل ایڈمنسٹریشن کے مختلف شعبوں میں اعلیٰ معیاری تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ حکومت نے رکشا شکتی یونیورسٹی ، جسے 2010 میں حکومت گجرات کے ذریعہ قائم کیا گیا تھا، کی جدیدکاری کے ذریعہ راشٹریہ رکشا یونیورسٹی نام کی ایک قومی پولیس یونیورسٹی قائم کی۔ یونیورسٹی، جوکہ قومی اہمیت کا حامل ایک ادارہ ہے، نے یکم اکتوبر 2020 سے اپنے کام کاج کا آغاز کیا۔ یہ یونیورسٹی صنعت کی معلومات اور وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئےنجی شعبہ کے ساتھ تال میل قائم کرے گی اور پولیس و سلامتی سے متعلق مختلف شعبوں میں عمدگی کے مراکز قائم کرے گی۔

Recommended