Urdu News

مسجد میں روزگار پر مبنی کورسز کروا کر خواتین اور لڑکیوں کو خود کفیل بنانے کی کوشش

مسجد میں روزگار پر مبنی کورسز کروا کر خواتین اور لڑکیوں کو خود کفیل بنانے کی کوشش

پرانی دہلی کی گنجان آبادی میں واقع لال کنواں کی سبز مسجد سبھی کے لیےبنی مشعل راہ

پرانی دہلی کی گنجان آبادی میں موجود ایک مسجد علاقے کی خواتین اور لڑکیوں کو روزگار سے جوڑنے اور انہیں ہنر مند بنا کر خود کفیل بنانے میں مصروف ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر اور سلائی، کڑھائی، بْنائی کے کورس بالکل مفت فراہم کیے جا رہے ہیں۔ فاطمہ اکیڈمی کی سرپرستی میں چلنے والے اس سنٹر میں بڑی تعداد میں لڑکیاں اور خواتین ہنر سیکھنے کے لیے آتی ہیں۔ حتیٰ کہ بچیوں کی دادی نانی ماں اور بھابھیاں اور بڑی عمر کی خواتین بھی یہاں پر آکر ہنر سیکھ روز گار سے جڑنے کی کوشش کررہی ہیں۔

فاطمہ اکیڈمی کا قیام 12 سال قبل کی گئی تھی  مگر تین سال قبل اس مسجد میں سنٹر قائم کیا گیا ہے۔ اس سنٹر سے اب تک ہزاروں خواتین اور لڑکیوں کو تربیت دی جا چکی ہے اور ان کو ان کے گھروں پر کام فراہم کیا جا چکا ہے۔ سینٹر میں لڑکیوں کو مہندی ڈیزائننگ، سلائی کڑھائی، انگلش اسپیکنگ کورس سے لے کر کمپیوٹر سافٹ ویئر، ویب ڈیزائننگ، گرافکس ڈیزائننگ کی تربیت دی جاتی ہے۔یہاں پر مسلم خواتین اور لڑکیوں کو انگریزی اور عربی گرامر کے ساتھ ساتھ دینیات کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ لڑکیوں کے لیے دستکاری میں قریشیا، مائیکرون جیسے کورسز بھی کرائے جاتے ہیں۔ معاشی طور پر کمزور مسلم خواتین اور لڑکیوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے یہ تمام کورسز ان کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہو رہے ہیں۔ روزگار پر مبنی کورسز کے ذریعے مسلم خواتین اور لڑکیاں اپنے گھر اور گھر کے قریب کاروبار اور نوکری وغیرہ کرکے اپنے گھر اورسماجی کی معاشی حالت کو بہتر بنانے میں مصروف ہیں۔ یہ سنٹر بغیر کسی سرکاری مدد کے چلایا جا رہا ہے اور اس سنٹر کو چلانے کے لیے کسی سے چندہ بھی نہیں لیا جا رہا ہے۔

فاطمہ اکیڈمی کے صدر اعجاز نور نے بتایا کہ سنٹر میں صبح سے شام تک سینکڑوں خواتین اور بچیاں آتی ہیں اور یہاں پر مختلف قسم کی کلاسز چلائی جاتی ہیں۔ اس کے لیے یہاں ٹرینرز اور اساتذہ کو رکھا گیا ہے۔ لڑکیوں کی تعداد کافی بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے کچھ کلاسیں قریب ہی واقع شادی ہال میں شفٹ کرنا پڑ رہی ہیں۔ کسی بھی کورس کے لیے کسی قسم کی کوئی فیس نہیں لی جاتی۔ اسٹاف کو تنخواہ بھی اپنی طرف سے دی جاتی ہے۔مسجد کی کمیٹی اپنی جگہ کے بدلے اکیڈمی سے کوئی کرایہ نہیں لیتی۔ یہ مسجد دہلی کے لوگوں بالخصوص پرانی دہلی کے لوگوں کے لیے ایک مثال بن گئی ہے۔ پرانی دہلی میں ایسی مساجد کی ایک بڑی تعداد ہے جہاں خواتین اور لڑکیوں کی زندگی کو بہتر بنانے اور انہیں خود انحصار بنانے کے لیے پروگرام چلائے جا سکتے ہیں۔ دہلی انجمن کے صدر ذاکر حسین اس مرکز سے بہت متاثر ہیں اور وہ پرانی دہلی کی زیادہ تر مساجد میں جہاں خالی جگہ ہے وہاں ایسا سنٹر قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ترکمان گیٹ پر واقع بڑی مسجد میں جلد ہی ایسی کلاسز شروع کرنے کا منصوبہ ہے جس کی تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اوکھلا کی مرادی روڈ مسجد اور اندرا لوک کی بڑی مسجد میں کمپیوٹر کلاسز شروع کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں تاکہ خواتین اور لڑکیوں کو خود انحصاری اور انہیں روزگاریافتہ بنایا جا سکے۔وہ سرکاری اسکولوں کے ایس ایم سی کے کوآرڈینیٹر بھی ہیں نے کہا ہے کہ مسجد میں چلنے والے مرکز میں بچوں کو کمپیوٹر پر مبنی کورس پڑھایا جاتا ہے۔ سنٹر میں بڑی تعداد میں چھوٹی اور بڑی لڑکیاں کمپیوٹر سیکھنے آتی ہیں اور وہاں عمر اور مذہب کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ مرکز میں دادی کے ساتھ پوتی، نتنی کے ساتھ نانی اور بہن کے ساتھ بھابھی یہاں آکر تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ لڑکیوں کی حفاظت کے لیے یہاں ایک سی سی ٹی وی کیمرہ نصب کیا گیا ہے اور ان کی نقل و حرکت کی مکمل معلومات ایک رجسٹر میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنوبی ہند کی مساجد میں پہلے ہی ایسے مراکز چل رہے ہیں۔ شمالی ہندوستان میں اس نظام کو اپنانے کی ضرورت ہے، خالی مساجد کی جگہ کا استعمال کرکے ہم اپنی معاشی حالت کو بہتر بنانے اور خواتین، لڑکیوں کو خود انحصار بنانے کے لیے کام کر سکتے ہیں۔

Recommended