شاہ خالد مصباحی
جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی
دی کشمیر فائلز کیا ہے ؟
کشمیر فائلز سال / 2022 کی ، ہندوستانی زبان میں ایک فلمی ڈرامہ ہے ۔ جس کے رایٹر کا نام وویک اگنی ہوتری ہے۔ یہ فلم 1990/ میں کشمیر میں پیدا ہونے والی شورش، 'کشمیری پنڈتوں کے اخراج' پر مبنی ہے۔ اور اس فلم میں انوپم کھیر، درشن کمار، متھن چکرورتی اور پلوی جوشی کا خاص کردار شامل ہیں۔
وویک اگنی ہوتری نے اپنے جاری بیان میں یہ دعویٰ کیاہے کہ 700 سے زائد مہاجرین کا سچایی کے ساتھ میری ٹیم نے انٹرویو لیا جس میں کسی بھی قسم کا تصوراتی اور افسانوی باتوں کی ملاوٹ نہیں اور ان خاندانوں پر گزری ہوئی ،آب بیتی دو سال کے عرصے میں ریکارڈ کی۔ مسلسل ظلم و تشدد ہونے کی بنا پر وادی کشمیر سے کوچ کرکے مختلف ملکوں میں بسے افراد سے ملاقاتیں کیں ، اور ان کی آنکھوں سے برسی اور زبان سے نا بیان ہونے والی داستان تشدد کو نوٹ کرکے "دی کشمیر فائلز" کا نام دیا ۔
کشمیری پنڈتوں اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ پر ایک نظر
کشمیری پنڈت ، یہ کشمیری ہندوؤں کا ایک گروپ ہے۔ ان کا تعلق وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والے پنچ گاؤڑا برہمن گروپ سے ہے، ایک پہاڑی علاقہ جو جموں اور کشمیر کے درمیان کشمیری وادی کے نام سے مرسوم ہے ، یہی ان کی آماجگاہ ہے ، جو ہندوستان کے زیر انتظام یونین ٹیریٹری میں واقع ہے۔ کشمیری پنڈت اصل میں وادی کشمیر میں مسلمانوں کے اثر و رسوخ کے خطے میں داخل ہونے سے پہلے رہتے تھے، جس کے بعد بڑی تعداد نے اسلام قبول کیا۔ وادی میں اسلامی عسکریت پسندی کے بڑھنے کی وجہ سے، 1990 کی دہائی میں بڑی تعداد میں لوگ وہاں سے چلے گئے۔ اس کے باوجود، بہت کم تعداد باقی رہ گئی ہے، اور وہ کشمیر کے رہنے والے واحد ہندو برادری ہیں۔
اس فلم کی تاریخی داستان یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ جب جولائی 1988 میں، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ ، تحریک (JKLF) نے ریاست کشمیر کو ہندوستان سے علیحدگی کے لیے بغاوت شروع کی ۔ اور اس کے لیے آواز بلند کی ۔
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ(JKLF)، ایک عسکریت ، علیحدگی پسند تنظیم ہے جو ہندوستان کے زیر انتظام اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دونوں علاقوں میں سرگرم ہے۔ یہ اس وقت ایک فعال کشمیری عسکریت پسند تنظیم کے نام سے جانی جاتی تھی ۔ جس کا مقصد صرف اور صرف آزاد کشمیر ، کشمیر نیشنلزم کا تھا ۔
اس لیے اس تحریک کے حامیوں نے ہر اس شخص کو قتل کیا جس نے کھل کر بھارت نواز پالیسیوں کا اظہار کیا۔ یہ کسی مذہبی جذبات کی لڑائی نہیں تھی بلکہ کشمیر کو ایک الگ ریاست کے طور پر مانگ کی جانے والی لڑائی تھی ، جو آج بھی جاری ہے۔ بے شمار مسلم افراد ہر روز گولیوں اور بارود کے تڑاکوں سے بھونے جاتے ہیں۔ لیکن کبھی بھی کسی میڈیاتی ذرائع یا سیکولر ازم کے پیروکار نے مسلم جینوسایڈ کے نام سے کسی ڈرامہ سازی یا راٹٹ ٹو جسٹس کا نعرہ نہیں دیا ۔ لیکن مذہب سے پرے چلائی گئی اس تحریک کے چپیٹ میں وادی کے کچھ برہمنوں کے آنے سے ، انگلش ویکیپیڈیا اور میڈیاتی ذرائع یہ واضح طور پر لکھتا ہے کہ تحریک کے ہدف کے تحت کشمیری ہندوؤں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ۔ ان کا جینوسایڈ کیا گیا ، ان کے آشیانوں کو تباہ برباد کرکے ، برہمن عورتوں کا ریپ کیا گیا ۔ اس خوف و ہراس کی وجہ سے آج بھی کشمیری پنڈتوں کے قبائل اپنی جایدادوں کو چھوڑ کر ، دوسرے ملکوں ، ریاستوں میں بسنے پر مجبور ہیں ۔ آذادی کے تہتر سال بعد بھی ان کے ساتھ انصاف کیوں نہیں ؟
( کشمیر فائلز ، میڈیا اور عوامی رجحانات و نظریات کا سروے ) حتی کہ ان سے زیادہ دوسرے قبائل سے تعلق رکھنے والے انسانوں کی جانیں تلف ہوئی تھیں ۔
تقریباً 250,000 مسلمان مارے گئے تھے اور لاکھوں مزید بے گھر ہو کر پاکستان کی طرف دھکیل دیے گئے تھے۔ اس کے بعد سے، تقریباً نصف ملین لوگ مارے گئے، معذور، اندھے، تشدد اور لاپتہ ہو چکے ہیں۔
لیکن اب یہ حقیقت قوم مسلم کو تسلیم کرنی پڑے گی ، ہزاروں کارنامے ، ایکشن انسانیت اور ذات انسان کے خلاف چلائی گئی ، جو مختلف قبائل ، فرقے ، برادری سے تشدد و جبر کا فرقہ وارانہ کشیدگی سے جڑی رہی ، لیکن افراد عالم اسے ، اس کے ظاہر مقاصد پر محمول کرتے ہوئے با مقصد قرار دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر آج، مسئلہ کشمیر ، اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کے تناظر ہی میں نہیں ، بلکہ یوکرین کا فلسطینی ، برما ، شام ، لیبیا ، افغانستان میں بسے کروڑوں مسلمانوں کا قتل ، روزمرہ مسلم اقلیتوں کو لے ہندوستان ہی میں مختلف مذہبی آزادی کو لے قتل عام ، مظفر نگر فسادات وغیرہم جہاں واضح طور پر ایک خاص کمیونٹی کو ٹارگٹ کیا جاتا رہا ہے اور کیا جارہا ہے ۔ لیکن رائٹ ٹو جسٹس اور جینوسایڈ کا لفظ یہاں زیر استعمال آج تک کیوں نہیں ہوا؟
بلکہ بر خلاف ہمیں ہی اسلامک ٹررسٹ ، دہشتگردی جیسی ٹرمینیشن کا بار بار استعمال کرکے پروپیگنڈا پھیلاکر ہماری شناخت کو گندہ کرنے کی کوشش جاری ہے ۔
یہ ایک واضح سچائی ہے کہ قوم مسلم کی لیڈرشپ سے جڑی کوئی بھی مشن / تحریک جو ابھر رہی ہے یا ابھری ، اسلام اور اسلامک ٹررسٹ جیسی فکروں سے جوڑ کر میڈیاتی ذرائع ابلاغ اسے بھنگ کرنے اور اس کے مقاصد سے ، لوگوں کو صرف نظر کرنے کی، بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ اور کرتے رہیں گے ۔
اسی طریقے سے جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ/ تحریک کو بھی اس کے مقصد سے ، جو آذاد کشمیر کا تھا ، لوگوں کو صرف نظر کرتے ہوئے تحریک اور ارباب تحریک کے بارے میں یہ بات عام کردی گئی کہ اسلام اور آزادی کو ایک دوسرے کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے اپنی متحرک حکمت عملیوں اور عوامی گفتگو میں اسلامی فارمولیشنز کو بھی استعمال کیا جارہا تھا۔ اس نے سب کے لیے مساوی حقوق کا مطالبہ نہیں کیا، تاہم اس کا ایک الگ اسلامی ذائقہ تھا کیونکہ اس نے اسلامی جمہوریت، قرآن و سنت کے مطابق اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اور اسلامی سوشلزم کی معیشت کا مطالبہ کیا۔ جس کا مکمل خلاصہ اور اس کی پوری تصویر کشی کی بنیاد ، دی فلم کشمیر فائلز میں 'مسلم جینوسایڈ' کے نام پر پیش کی گئی ہے ۔
وویک کا حقیقت پر مبنی واقعات کا دعویٰ ، اور شاویلینی کھنہ
جیساکہ آپ اوپر کے کالم ، کشمیر فائلز، میں پڑھے ہوں گے کہ وویک کا دعویٰ ہے کہ یہ حقیقت پر مبنی واقعات ہیں ، اس میں کسی قسم کا کوئی فلسفیانہ رول اور افسانوی مجموعے کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن
اسکوا ڈرن لیڈر روی کھنہ کی اہلیہ شاویلینی کھنہ نے 4/ مارچ کو دی کشمیر فائلز کے خصوصی پریمیئر میں شرکت کی تھی۔ تاہم، فلم دیکھنے کے بعد، انہوں نے دعویٰ کیا کہ فلم میں ان کے شوہر کے ایک سین کو غلط طریقے سے دکھایا گیا ہے۔ انہوں نے پریمیئر کے فوراً بعد اسٹیج پر تقریر کرتے ہوئے اعتراض اٹھایا، لیکن میکرز نے توجہ نہیں دی۔ درحقیقت، ان کی طرف سے اس بات پر کوئی رد عمل نہیں آیا کہ وہ اس سین کو فلم سے ہٹا دیں گے اور اس لیے اسے قانونی طریقہ اختیار کرنا پڑا۔
/4 مارچ 2022کو عدالت کی طرف سے جاری کردہ حکم میں کہا گیا ہے، "لازمی حکم امتناعی کا دعویٰ جس میں مدعا علیہ کو فلم میں مدعی کے شوہر، یعنی شہید سکواڈرن لیڈر روی کھنہ، کے بارے میں دکھائے گئے منظر اور غلط حقائق کو فوری طور پر ہٹانے اور حذف کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ اور 11/ مارچ 2022 کو ریلیز ہونے والی فلم دی کشمیر فائلز کا ٹریلر، جو کہ مدعی کے مقدمے میں بیان کردہ اصل حقائق سے قطعی طور پر اور مکمل طور پر غیر متعلق اور غیر مماثل ہے۔
فلم کا یہ ایک پہلو ہے جو سچائی کے ساتھ اجاگر ہو کر سامنے آیا اور نا جانے کتنی ایسی تصویریں مرتب ہوئی ہوں گی جو ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور تشدد کے فروغ لیے بہتے ہوئے آنسوں ، اجڑتے دیار ، بیوہ ہوتی ہوئی مائیں ، اور ریپ ہوتا ہوا کنواریوں کا خوب صورت سہاگن ، یہ سارا اسلوب دی کشمیر فائلز کے ساتھ مل کر ایک نیے ہندوستان کی تصویر بنانے میں مدد گار ثابت ہوگی۔۔۔۔۔ورنہ بتیس سالوں کے بعد آپ کے خیال میں وہ کون سی خامیاں ہیں جن کی وجہ سے آج یہ مسئلہ ابھرا؟
بالاخر ، ہم ہندوستانی کا مقام کشمیر اور خطہ کشمیر کے تحت ، جذباتی ، روحانی اور ہر لحاظ سے وہی خیال ہے جسے علامہ اقبال نے بہت پہلے اپنے کلام میں اظہار فرمایا کہ
تنم گلے زخیابانِ جنت کشمیر
دلم ز خاکِ حجاز و نواز شیراز است