اردو شعر و شاعری میں تمام مذاہب کے تہواروں کا ذکر ملتا ہے۔ ہولی کے دن ہم نے تلاش کر کے مشہور شاعر و ادیب ڈاکٹر شفیع ایوب کی یہ تحریر آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مختصر سی تحریر میں اردو شاعری کے سیکولر کردار کی ایک جھلک بھر ہے۔ ویسے اردو شاعری کا دامن ان عناصر سے بھرا ہوا ہے۔ ہم اپنے تمام پڑھنے والوں اور چاہنے والوں کو ہولی کی مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر شفیع ایوب کے شکریے کے ساتھ یہ تحریر آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ آپ سب کو ہولی مبارک ہو۔ (ٹیم انڈیا نیریٹو اردو)
ہولی، ہندوستان اور اردو شاعری
اُردو میں رنگ ہولی کے
بسنت، بہار، پھاگن، ہولی اور اردو شاعری کے رنگ
ڈاکٹر شفیع ایوب
رنگوں کا تہوار ہولی ہندوستان کے مختلف حصوں میں جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ موسم بہار میں منایا جانے والا یہ ایک مقدس اور عوامی تہوار ہے۔ اس دن لوگ ایک دوسرے پر رنگ، ابیر، گلال پھینک کر خوشی مناتے ہیں۔ گھروں کے آنگن کو رنگوں سے سجایا جاتا ہے جسے رنگولی کہتے ہیں۔ یہ تہوار ایک پوراڑک کتھا پر منحصر ہے۔ ہندی کلنڈر کے مطابق پھاگن کے مہینے میں منایا جانے والا رنگوں کا یہ تہوار صدیوں سے ہندوستان کے اہم تہواروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان میں موسموں کا آغاز بسنت سے سمجھا جاتا ہے۔ پھاگن کے مہینے میں سردی کا زور کم ہو جاتا ہے اور چمکیلی دھوپ اپنا جلوہ دکھانے لگتی ہے۔ ایران میں جسے موسم بہار کہتے ہیں اسے ہی ہم بسنت کہتے ہیں۔ بلکہ مشترکہ تہذیب نے ”بسنت۔ بہار“ کی گنگا جمنی ترکیب بھی دی ہے۔ اسی پھاگن میں ہولی کا تہوار منایا جاتا ہے۔ جسے پھاگ بھی کہتے ہیں۔
پھاگ کا یہ تہوار مغل حکمرانوں کے عہد میں بھی دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ دلّی کے قلعہ معلی میں ہولی کی تقریبات کا اہتمام ہوتا تھا۔ قلعہ کے اندر پھاگ گانے، پھاگ کھیلنے اور پھاگ منگوانے کا ذکر نادرات شاہی میں ملتا ہے۔ لال قلعہ میں شاہزادے اور شاہزادیاں ایک دوسرے پر عبیر اور گلال چھڑکتے تھے اور پھولوں کی گیندوں سے کھلتے تھے۔ مغل بادشاہ شاہ عالم آفتاب سے متعدد ہولیاں منسوب ہیں۔ میر تقی میر سے بہت پہلے ہی فائز دہلوی کے کلام میں ہولی کا ذکر موجود ہے۔ شیخ ظہور الدین حاتم کی مثنوی بہاریہ میں بھی ہولی اور دیوالی کا ذکر ملتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: کوئی پھولوں کی گیندی پھینکتی ہے۔ کوئی گیندوں کی چوٹیں سینکتی ہے۔ کھلے بالوں میں ہے ابرک کی افشاں۔ کہ جیسے رات کو تارے ہوں رخشاں۔ مرزا محمد رفیع سودا اپنے قصیدوں کی وجہ سے اردو شاعری میں جانے جاتے ہیں لیکن ہولی کا ذکر سودا کے ایک شعر میں بھی ملتا ہے:
برج میں ہے دھوم ہوری کی و لیکن تجھ بغیر
یہ گلال اڑتا نہیں بھڑکے ہے اب یہ تن میں آگ
میر تقی میر کو خدائے سخن کہا جاتا ہے۔ میر کے یہاں بھی ہولی سے متعلق دو مثنویاں ملتی ہیں۔ میر آگرہ میں پیدا ہوئے، دہلی میں رہے اور بعد میں لکھنؤ چلے گئے تھے۔ میر کی جن دو مثنویوں میں ہولی کا ذکر ملتا ہے، وہ دونوں لکھنؤ میں لکھی گئیں۔ ان میں لکھنؤ کا خاص رنگ نمایاں ہے۔ نشاط و طرب کے ہنگاموں کا ذکر میر کی زبانی سنیے:
چھڑیاں پھولوں کی دلبروں کے ہاتھ
سینکڑوں پھولوں کی چھڑی کے ساتھ
قمقمے جو گلال کے مارے
مہوشاں لالہ رخ ہوئے سارے
خوان بھر بھر عبیر لاتے ہیں
گل کی پتی ملا اڑاتے ہیں
جشن نوروز ہند ہولی ہے
راگ رنگ اور بولی ٹھولی ہے
ابتدا سے ہی اردو شعر و ادب میں ہولی کا ذکر ملتا ہے۔ ویسے اردو کا کردار ہمیشہ سے سیکولر رہا ہے۔ دکن میں اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ نے ہندو تہواروں اور ہندو رسم و رواج کا بھرپور ذکر اپنی شاعری میں کیا ہے۔ مرزا غالب اگر میر مہدی مجروح کو خط لکھتے ہیں تومنشی ہرگوپال تفتہ سے بھی مسلسل خط وکتابت رہتی ہے۔ اردو کے البیلے شاعر نظیر اکبر آبادی اگر مولود شریف پر نظمیں کہتے ہیں تو دیوالی اور ہولی کو بھی موضوع سخن بناتے ہیں۔ ناسخ جیسے شاعر نے بھی ہولی پر شعر کہے ہیں۔
”غیر سے کھیلی ہے ہولی یار نے۔ ڈالے مجھ پر دیدۂ خوں بار رنگ“
کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ہندی کے صف اول کے ادیب و شاعر بھارتیندو ہریش چندر اردو میں شاعری کرتے تھے۔ رسا بنارسی کے نام سے ان کا کلام ملتا ہے۔ بھارتیندو ہریش چندر ہندی کے اتنے بڑے ادیب ہیں کہ ان کے نام سے ہندی ادب کا ایک عہد منسوب ہے۔ جسے ”بھارتیندو یُگ“ یا ”بھارتیندو کال“ کہتے ہیں۔ بھارتیندو ہریش چندر کھڑی بولی ہندی کے پہلے نثر نگار ہیں۔ وہ 1850میں بنارس میں پیدا ہوئے اور 1885میں ان کا انتقال ہو گیا۔ وہ صرف35سال زندہ رہے۔لیکن اس مختصر مدت میں انھوں نے ہندی زبان کی زبردست خدمت کی اور ایک تحریک اردو کی مخالفت میں بھی چلاتے رہے۔ اردو مخالفت میں احباب کو جو خط لکھتے تھے وہ اردو میں ہی لکھتے تھے۔ اردو میں شاعری کرتے تھے۔ ہولی پہ ان کا یہ شعر خاصا مشہور ہوا:
گلابی گال پر کچھ رنگ مجھ کو بھی جمانے دو
منانے دو مجھے بھی جان من تہوار ہولی میں
جلیل مانک پوری اپنے زمانے کے مشہور شاعر تھے۔ ہولی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: بہار آئی کہ دن ہولی کے آئے۔ گلوں میں رنگ کھیلا جا رہا ہے۔
نظیر اکبر آبادی کے ذکر کے بغیر تو ہولی اور اردو شاعری کا ذکر ہی نہیں ہو سکتا۔ ہولی سے متعلق نظیر اکبر آبادی کے کلیات میں دس نظمیں موجود ہیں۔ ہولی کے جشن کی سماں بندی کلام نظیر میں کچھ یوں ہے:
کچھ طبلے کھڑکے تال بجے کچھ ڈھولک اور مردنگ بجے
کچھ جھڑپیں بین ربابوں کی کچھ سارنگی اور چنگ بجے
کچھ تانپوروں کے جھٹکے کچھ ڈھمڈھمی اور مرچنگ بجے
کچھ گھنگھرو چھنکے چھم چھم چھم کچھ گت گت پر آہنگ بجے
ہے ہر دم ناچنے گانے کا یہ تار بندھایا ہولی نے
یہ تو محض ایک نمونہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو شاعری کے دامن میں ہولی کے ہزار رنگوں کی بہار ہے۔
(مضمون نگار ڈاکٹر شفیع ایوب جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں درس تدریس سے وابستہ ہیں)