Urdu News

سلیم محی الدین:غزل کے آنچل میں شوخ رنگ بھرنے والا شاعر

پروفیسر سلیم محی الدین کے ساتھ ڈاکٹر شفیع ایوب بھوپال میں

 سلیم محی الدین:غزل کے آنچل میں شوخ رنگ بھرنے والا شاعر

گزشتہ دو دہائیوں میں سرزمینِ دکن سے اُردو شعر و ادب کی جن آوازوں نے ملک بھر میں اعتبار حاصل کیا ہے، ان میں ایک ممتاز نام ڈاکٹر سلیم محی الدین کا ہے۔ اُردو کے استاد، نقاد اور شاعر سلیم محی الدین کی شاعری پر وزیر آغا، پروفیسر عتیق اللہ، ڈاکٹر ارتکاض افضل، جاوید ناصر اور بشر نواز جیسی عظیم شخصیات لکھ چکی ہیں۔ میں ایک طفل ِ مکتب اب بھلا اس البیلے شاعر کی شعری فتوحات کا جائزہ کیا لوں؟ لیکن اس قلندرِ دوراں سے کچھ رسم وراہ اپنی بھی ہے۔ تو کیوں نہیں کچھ ذاتی باتیں کر لی جائیں۔ سلیم محی الدین کی شاعری پر گفتگو پھر کبھی۔ 
بھائی سلیم محی الدین سے پہلی ملاقات اورنگ آباد میں مہارشٹر کے سابق وزیر، ماہر تعلیم، اسکالر رفیق زکریہ مرحوم کے دولت کدے پر ہوئی۔پدم شری بیگم فاطمہ رفیق زکریہ نے باہر سے آئے کچھ خاص مہمانوں کے لئے دعوت کا اہتمام کیا تھا۔ یہ ناچیز بھی مدعو تھا۔ ایک ملنسار شخص نے مسکراتے ہوئے ہاتھ ملایا، سلیم محی الدین۔ نام تو سنا ہوا تھا، کچھ غزلیں پڑھ رکھی تھیں، دہلی میں بھائی رؤف رضا سے اکثر ذکر سن رکھا تھا۔ اس شخص کے بارے میں پہلے سے جو اچھی رائے قائم تھی وہ پل بھر میں اور اچھی ہو گئی۔ اور پھر دوستی کا یہ رنگ اور گاڑھا ہوتا گیا۔ سلیم بھائی ایسے بے لوث، ملنسار، نرم مزاج، ا ورصاف دل انسان ہیں کہ کسی کو بھی ایسے دوست پہ ناز ہوگا۔ 
دہلی میں سلیم محی الدین صاحب کے کئی دوست ہیں لیکن مرحوم رؤف رضا سے ان کا ایک خاص رشتہ تھا۔ رؤف بھائی انھیں بہت عزیز رکھتے تھے۔ رؤف رضا جتنے اچھے شاعر تھے اتنے ہی اچھے انسان بھی تھے۔ بہت پیارے انسان۔ یاروں کے یار۔ شاعری کا بہت ستھرا ذوق رکھتے تھے۔ بھائی سلیم محی الدین کا بھی معاملہ یہ ہے کہ وہ اچھے شعر کی تلاش میں رہتے ہیں۔ شاعری کا نہایت ستھرا ذوق رکھتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اپنے ہم عصروں کی شاعری بھی پڑھتے ہیں۔ اور اگر کہیں کوئی نیا پن نظر آجائے، کوئی موضوع نئے ڈھنگ سے کسی نے باندھا ہے تو پھر سلیم بھائی کھل کے داد دیتے ہیں۔ یہی بات انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہے۔ ہم کئی ایسے شاعروں کو جانتے ہیں جو صرف اپنے آپ میں ڈوبے رہتے ہیں۔ انھیں اپنے سوا کہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ کسی اور کو پڑھتے بھی نہیں ہیں، ہم عصروں کو تو بالکل نہیں پڑھتے۔ لیکن سلیم محی الدین ان سب سے الگ ہیں۔ جب بھی دہلی آتے ہیں کبھی شکیل ؔجمالی تو کبھی ڈاکٹر ظہیر ؔ رحمتی کی شاعری کی بات کرتے ہیں۔ کبھی شہپر ؔ رسول تو کبھی فرحت احساسؔ کا کوئی نیا تازہ شعر سناتے ہیں۔ میں کبھی پروفیسر خالد محمود یا ایڈوکیٹ ناصر عزیز کا کوئی شعر پڑھ دوں تو دوبارہ سنتے ہیں۔ ان کے دہلی آمد کی ایک بڑی وجہ یہاں کے شاعروں ادیبوں سے ملاقات بھی ہے۔ایک زمانے میں قومی اُردو کونسل کی مٹنگ ہوتی تو سلیم بھائی بھی بطور ایکسپرٹ تشریف لاتے۔ کبھی کبھی ساتھ میں گلبرگہ کی باغ و بہار شخصیت ڈاکٹر فہیم الدین پیر زادہ بھی ہوتے۔ ہم نے کئی بار ان دونوں کو جے این یو آنے کی دعوت دی، سلیم بھائی اور فہیم الدین پیر زادہ نے ہماری دعوت کو قبولیت بخشی۔ جے این یو کیمپس میں ہم یوں ہی بے سبب ادھر ادھر بھٹکتے اور دنیا جہان کی باتیں کرتے۔ 
سلیم بھائی کو جب بھی دہلی آنا ہوا، ایک دو روز پہلے پربھنی سے فون آیا کہ بھائی کل شام کی فلائٹ سے دہلی آرہا ہوں۔ تین روز قیام رہے گا۔ اب ہم تین روز کی آوارگی کا انتظام کر لیتے۔ کھانا پینا، گھومنا، شعر سننا اور سنانا، اور شاعروں ادیبوں کے قصے، کچھ آنکھوں دیکھے، کچھ کانوں سنے، دہرائے جاتے۔ ہم نے اکثر باوضو ہو کے دوستوں کی غیبت کی ہے مگر بڑی پاکیزگی سے۔ سلیم بھائی کی قربتوں نے سکھایا کہ اگر دل میں خلوص ِ عاشقی ہو، گناہوں میں بڑی پاکیزگی ہے۔ میں گورکھپور، پٹنہ، لکھنؤ اور رام پور کے شاعروں کے قصے سناتا اور سلیم بھائی کبھی جاوید ناصرؔ کی مے کشی، کبھی قمر اقبال ؔ کی فاقہ مستی تو کبھی بشر نواز ؔ کی خفگی کا کوئی دلچسپ قصہ سناتے۔ فاروق شمیم اور فہیم ؔ صدیقی جیسے شاعروں سے تو کوئی بھی دوستی نبھا سکتا ہے مگر خان شمیم جیسے خطرناک، ذہین اور لا اُبالی شاعر سے بھی سلیم بھائی دوستی نبھانے کا ہنر جانتے ہیں۔سلیم محی الدین جیسے لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے بہت اچھے، اچھے اور برے دوست تو ہو سکتے ہیں کوئی ان کا دشمن نہیں ہو سکتا۔ ان کی زندگی کی لغت میں نفرت اور دشمنی جیسے الفاظ نہیں ہیں۔ خدا وند کریم نے ایسے لوگوں کو فقط محبت، پیار اور دوستی کے لئے دنیا میں بھیجا ہے۔ 
بھائی سلیم محی الدین نہ صرف ایک خوش فکر شاعر ہیں بلکہ اچھی نثر لکھنے پہ بھی قادر ہیں، شعلہ بیان مقرر تو نہیں لیکن سیمینار اور کانفرنس میں دلائل کے ساتھ گفتگو کے فن سے خوب واقف ہیں۔ مطالعہ وسیع ہے، اور وسیع تر ہوا جا رہا ہے۔ نہ صرف کتابیں پڑھنے کے شوقین ہیں بلکہ کتابیں خریدتے بھی ہیں۔ آپ نے اُردو کے بہت کم پروفیسروں کو اردو اخبار و رسائل خرید کر پڑھتے دیکھا ہوگا۔ سلیم بھائی یہاں بھی ذرا مختلف ہیں، نہ صرف اُردو کے اخبارات و رسائل پڑھتے ہیں بلکہ پابندی سے خریدتے بھی ہیں۔ اپنے مکان میں ایک خوبصورت ذاتی لائبریری بنا رکھی ہے۔ رات کی تنہائی میں کتابوں سے خوب باتیں کرتے ہیں۔ نادر، نایاب، کمیاب کتابیں جمع کرنے کا خوب شوق ہے۔ عہد وسطیٰ کے بزرگ فلسفیوں کی طرح سلیم بھائی بھی کتابوں کی چوری کو جائز گردانتے ہیں۔ یار دوستوں کو اپنی ذاتی لائبریری دکھانے کا شوق تو ہے لیکن کتابوں کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے۔ کتابوں کو نئی عمر کی محبوبہ کی طرح یار دوستوں کی نظر بد سے بچاتے رہتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر فہیم صدیقی ان ذخیرہ کتب میں خاصی تعداد ان کتابوں کی ہے جو بشر نواز ؔ کے گھر سے وقتا فوقتا اُڑائی گئی تھیں۔ راقم کو فہیم صدیقی کے اس بیان پہ یوں شک نہیں کہ اس کارِ نیک میں وہ برابر کے شریک رہے ہیں۔ 
سلیم محی الدین کو جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کا ایک پیر اورنگ آباد میں تو دوسرا پیر پربھنی میں ہوتا ہے۔ ان کی زندگی ان دو شہروں میں بنٹی ہوئی ہے۔ لیکن کمال یہ ہے کہ سکون ِ دل اِدھر بھی ہے اور اُدھر بھی۔ پربھنی کا گُن گان کرتے ہوئے اکثر کہا کرتے ہیں کہ دنیا میں جرمنی اور ہندوستان میں پربھنی کا کوئی جواب نہیں۔ سیلف میڈ آدمی ہیں، اپنی دنیا آپ پیدا کی ہے۔ اپنے ماضی کو کبھی نہیں بھولتے۔ ماضی کا ہر زخم پھول بن کے کھلتا ہے، اور کبھی کبھی تنہائی کے موسم میں خوب مہکتا ہے۔ ان زخموں کی مہک سے سلیم محی الدین کو گھبراتے نہیں دیکھا بلکہ مسکراتے دیکھا ہے۔ ایسا وہی شخص کر سکتا ہے جو اعتماد سے پُر ہو۔ اسی اعتماد نے آج سلیم محی الدین کو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ ایران، ازبکستان، ترکمانستان، ترکی اور مصر میں بھی یاد کیا جاتا ہے۔ وہ ادیبوں و شاعروں کی عالمی انجمن سے وابستہ ہیں۔ رشین زبان کے عالمی شہرت یافتہ اسکالر پروفیسر آر۔ مینن ان کے قریبی دوستوں میں شامل ہیں۔ادبیات عالم کا جو نیا منظر نامہ ابھر رہا ہے، اس پہ سلیم محی الدین صاحب گہری نظر رکھتے ہیں۔ ادب کے ساتھ ساتھ وہ لسانیات، طبیعات، ریاضیات، علم حیوانات و نباتات پہ بھی نظر رکھنے لگے ہیں۔ میں واقعی اس بات سے خوف زدہ ہوں کہ ڈاکٹر سلیم محی الدین فزکس، کمسٹری اور فلسفہ کو ادب سے قریب تر کرنے کے مہم میں لگے ہیں۔ اگر وہ اپنے مہم میں کامیاب ہوتے ہیں تو ادب پہ بڑا بھاری وقت آنے والا ہے۔ 
سلیم بھائی کھانے کے کم مگر کھلانے کے بڑے شوقین ہیں۔ پینے کے نام پہ وہ بھی میری طرح پانی خوب پیتے ہیں اور چائے کبھی کبھی۔ جاوید ناصر، قمر اقبال، بشر نواز، خان شمیم اور فہیم صدیقی کی صحبتوں میں شام و سحر گزارنے والے سلیم محی الدین نہ جانے کیوں صرف چائے پیتے ہیں۔ بلکہ اکثر یوں بھی دیکھا ہے کہ یہ حضرت چاندنی کو بھی حرام کہتے ہیں۔ خدا کسی کسی کو محروم بھی تو رکھتا ہے۔ لیکن سلیم بھائی کی محرومی بڑی خوشگوار ہے۔ میں جب ان کے اپنے شہر اورنگ آباد میں تھا تو مجھے قسم قسم کے کھانے کھلائے۔ کبھی اپنے دوست سید اطہر احمد کے ساتھ تو کبھی نوجوان نقاد ڈاکٹر قاضی نوید صدیقی اور ان کے سدا بہار دوستوں کے ہمراہ۔ اورنگ آبادی نان قلیہ کا ذائقہ ابھی تک باقی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ سلیم بھائی جب دہلی آتے ہیں تب بھی وہ چاہتے ہیں کہ میں ان کے ہوٹل آجاؤں اور کھانا ساتھ کھائیں۔ اپنے تاجر دوست رفیق احمد کے ہمراہ دہلی تشریف لائے۔ حکم ہوا کہ جامع مسجد آجایئے، کھانا ہوٹل کریم میں کھائیں گے۔ جامع مسجد پہ کریم ہوٹل میں ڈنر کے وقت زبردست بھیڑ ہوتی ہے۔ لیکن صاحب سلیم بھائی ذائقے سے کوئی سمجھوتہ کرنے کو راضی نہیں تھے۔ ڈنر کے بعد میں نے بتایا کہ کریم والوں کا ایک فایؤ اسٹار ریسٹورنٹ بستی حضرت نظام الدین میں بھی ہے۔ طے ہوا کی اگلی بار کریم ہوٹل نظام الدین میں ہی ڈنر ہوگا۔ رات میں کافی دیر سے ہم سلیم بھائی اور رفیق احمد صاحب درگاہ حضرت نظام الدین پہنچے۔ زیارت کے بعد ہم نے چائے پی اورآدھی رات کو آئس کریم کھانے انڈیا گیٹ پہنچے۔ ایسے مواقع ہوں تو سلیم بھائی تھکنے کا نام نہیں لیتے۔ بس چائے پی جائے، غزل سنی جائے، کچھ نئے پرانے قصے، لطیفے، باتیں اور صبح کب فجر کی اذان ہو جائے پتہ نہیں چلے گا۔ 
بھائی سلیم محی الدین ایسے پیارے، بھلے، کھرے انسان ہیں کہ مجھے ہمیشہ ان کی دوستی پہ ناز رہے گا۔ مصنوعی دانشوری سے انھیں الرجی ہے۔ وہ دانشوری اور پروفیسری کو اُڑھے ہوئے نہیں رہتے۔ بے تکلف دوستوں کی محفل ہو تو اچھے خاصے بے تکلف ہوتے ہیں۔ ہنستے بھی ہیں اور ہنساتے بھی ہیں۔ ورنہ میں کئی ایسے پروفیسروں کو جانتا ہوں جو کئی کئی برس تک ہنستے ہی نہیں ہیں۔ حالا نکہ پروفیسر عتیق اللہ اور ڈاکٹر ارتکاذ افضل جیسے دانشوروں کی محفل میں سلیم بھائی کو اکثر سنجیدگی کا لبادہ اُوڑھے بھی دیکھا ہے۔ لیکن خان شمیم اور فہیم صدیقی کی ہم نشینی ہو تو سلیم بھائی کو کھِلتے اور کھُلتے بھی دیکھا ہے۔ ڈاکٹر قاضی نوید صدیقی، ڈاکٹر فیصل اور ڈاکٹر فیاض فاروقی کے ساتھ سلیم بھائی کا رویہ کچھ کچھ بزرگوں والا ہو جاتا ہے۔ جبکہ خان مقیم اور ممتاز فکشن نگار نور الحسنین کا ساتھ ہو تو ہم ایک الگ ہی سلیم محی الدین سے ملتے ہیں۔اورنگ آباد کے مشہور تاجر بھائی رفیق صاحب سے سلیم بھائی کی بڑی گہری دوستی ہے۔ رفیق صاحب بیکری والے ہیں۔  بسکٹ، کیک، پیسٹریزاور نان کی اچھی کوالٹی کے پارکھ لیکن شعر و ادب سے بے نیاز۔لیکن بھائی سلیم محی الدین کا کمال یہ ہے کہ وہ رفیق صاحب کو بھی اپنی تازہ غزلیں سنا دیتے ہیں۔ سلیم بھائی کی دوستی کی وجہ سے رفیق صاحب اس ناچیز پر بھی مہربان ہیں اور اورنگ آباد سے دہلی تک بسکٹ و کوکیز بھجوا دیتے ہیں۔ پروفیسر سلیم محی الدین میرے لئے دکن کے علم و ادب کا دروازہ کھولنے والی شخصیت ہیں۔ ہم نے اُنھیں کے ساتھ سراج ؔ اورنگ آبادی کے مزار پہ حاضری دی اور فاتحہ پڑھا۔ بھائی سلیم محی الدین نے ہی بتایا اور دکھایا کہ سراج اورنگ آبادی کے مزار سے بالکل قریب میں ممتاز شاعر بشر نواز بھی مدفون ہیں۔ اُنھیں کے ساتھ بی بی کا مقبرہ دیکھ کر تاج محل کی یادیں تازہ کی ہیں۔ یادوں کا ایک سلسلہ ہے، اور یہ سلسلہ جاری ہے۔  
ڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو، نئی دہلی 
     












Recommended