بحیثیت مہمان خصوصی ممتاز صحافی و شاعر چندر بھان خیالؔ نے اپنی تقریر میں کہا کہ اُردو صحافت نے اپنے آغاز سے موجودہ عہد تک سماجی، سیاسی اور ثقافتی سطح پر ملک و قوم کی جو شاندار خدمت کی ہے اسے کسی بھی حالت میں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔خواہ وہ اٹھارہ سو ستاون(1857) کی جنگ آزادی ہو یا اس کی ناکامی کے بعد برطانوی حکومت کے ذریعہ بھارت کی عوام پر ظلم و تشدد اور زیادتیوں کے خوفناک واقعات یا پھر انیس سو سینتالیس (1947) تک جاری رہنے والی تحریک آزادی،ہر محاذ پر اُردو اخبارات و رسائل نے عوام کے دلوں میں حب الوطنی کے جذبات اور آزادی کی تڑپ کو زندہ و بیدار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور پھر آزادی حاصل ہونے کے بعد ملک و قوم کی تعمیر و ترقی، جمہوری اقدار کے استحکام اور ہمارے سیکولر کردار کی پاسداری کے لیے بھی اُردو صحافت کی جدوجہد پوری قوت اور ذمہ داری کے ساتھ جاری ہے۔
چندر بھان خیال نے کہا کہ اگر اُردو صحافت کی 2 سوسالہ تاریخ پر ایک سرسری نگاہ بھی ڈالی جائے تو ہمارے سامنے قربانیوں،شہادتوں اور لگاتار جدوجہد کے بے شمار مناظر اُبھرکرسامنے آجاتے ہیں۔ اُردو اخبارات کی بدولت ہی انقلاب زندہ باد،مکمل آزادی، انگریزوں بھارت چھوڑو، سرفروشی کی تمنا اور جے ہند جیسے پورے ملک کی فضاؤں میں گونجے تھے۔عوام جوش و جنون اور جذبہ ایثار سے بھرے ہوئے تھے اور دیش کا بچہ بچہ اپنی جان دینے پر آمادہ تھا۔
اُردو صحافت کے لیے قربانیاں دینے والے مولانا محمد باقر پہلے اُردو صحافی تھے جو وطن عزیز کی خاطر شہید ہوئے۔ مولانا فضل حق خیرآبادی پہلے اُردو اَدیب و دانشور تھے جنہوں نے انگریزی حکومت کے خلاف جنگ کا فتوی جاری کیا۔ مولانا حسرتؔ موہانی پہلے اُردو صحافی تھے جنہوں نے سب سے پہلے اپنے اخبار کے ذریعے مکمل آزادی کا مطالبہ کیا اور مولانا ابوالکلام آزاد پہلے اُردو صحافی تھے، جو آخری سانس تک ہندو مسلم ایکتا اور قومی یکجہتی کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔چندر بھان خیال نے آگے کہا کہ ہم آج آزادبھارت کی جمہوری فضاؤں میں زندگی بسر کر رہے ہیں، لیکن ذمہ داریاں اور زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ اُردو اخبارات و رسائل کو کئی بڑی چیلنیز کا سامناہے۔کیونکہ اُردو ریڈرشپ روزبروز سمٹ کر ایک ہی فرقے تک محدود ہوتی جا رہی ہے، لہذا پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔
جمہوری اقدار کو پامال کرنے اور سیکولر کردار کو مسخ کرنے کی کوششیں لگاتار ہورہی ہیں۔ دہشت گردی،مآب لنچنگ، فرقہ واریت،مذہبی جنون، علاقائیت،جاتی واد، تنگ نظری،بھیدبھاؤاور مفاد پرستی کے عفریت ہرطرف سر اٹھا رہے ہیں۔ عقائد کے نام پر انسانیت کو ختم کیا جارہا ہے۔ سیاست اب غلاظت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ان حالات میں اُردو صحافت بڑی آزمائش کے دور سے گزر رہی ہے، لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ حالات مخالف ہونے کے باوجود اُردو صحافت ثابت قدمی سے آگے بڑھتی رہے گی۔
وہ کرے بات تو لفظوں سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جس کو اُردو آئے