کابل ،28مارچ
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں نجی اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے مالکان نے شکایت کی ہے کہ ملک میں جاری انسانی بحران کے دوران انہوں نے اپنے 60 فیصد طلباء کو کھو دیا ہے۔ خامہ پریس کے مطابق، یہ ایسے وقت ہوا ہے جب پورے افغانستان میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوا ہے۔ خامہ پریس نے رپورٹ کیا کہ مالکان نے کہا کہ ملک میں جاری انسانی بحران اور معاشی صورتحال نے معاش کو بری طرح متاثر کیا ہے، اس طرح زیادہ تر خاندانوں نے اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھنے کے لیے بدل دیا ہے۔
دریں اثنا، افغانستان میں پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے مالکان بھی طالب علموں کی تعلیم چھوڑنے کی تعداد کے بارے میں شکایت کرتے ہیں۔ قبل ازیں طالبان حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں چھٹی جماعت سے اوپر کی طالبات کو ان کی کلاسوں میں شرکت سے روک دیا گیا تھا۔ لڑکیوں کو مزید کہا گیا کہ جب تک امارت اسلامیہ اپنے اگلے فیصلے کا اعلان نہیں کرتی وہ گھر میں ہی رہیں۔ طالبان کے اس فیصلے کے خلاف افغانستان کے دارالحکومت کابل میں درجنوں طالبات سڑکوں پر نکل آئیں اور طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ چھٹی جماعت سے اوپر کی لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی کا فیصلہ واپس لے۔
طلوع نیوز نے رپوٹ کیا کہ "تعلیم ہمارا مکمل حق ہے" کے نعرے لگاتے ہوئے مظاہرین نے پورے افغانستان میں 7-12 جماعت کی لڑکیوں کے سکولوں کو دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کیا۔ انسانی حقوق گروپ کے مطابق، خواتین اور لڑکیوں کو صحت کی دیکھ بھال تک رسائی سے بھی روکی جارہی ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کے پاس فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ لڑکیوں کو اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں جانے کی اجازت دینا عالمی برادری کے اہم مطالبات میں سے ایک رہا ہے۔