شہباز شریف نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کا زاویہ ثابت ہوا تو استعفیٰ دے دوں گا
اسلام آباد 12 اپریل (انڈیا نیرٹیو)
پاکستان مسلم لیگ (این) کے رہنما شہباز شریف نے پیر کی رات دیر گئے پاکستان کے 23 ویں وزیر اعظم کے طور پر حلف لیا۔ حلف لینے کے بعد شہباز شریف نے اعلان کیا کہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کا زاویہ ثابت ہونے پر وہ وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو جائیں گے۔
متحدہ اپوزیشن کی جانب سے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنایا گیا۔ شہباز شریف کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے حلف دلایا۔ صدر مملکت عارف علوی کی طبیعت ناساز ہونے پر شہباز شریف نے چیئرمین سینیٹ سے حلف لیا۔
شہباز شریف سابق وزیراعظم نواز شریف کے بھائی ہیں۔ اس سے پہلے پیر کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے شہباز شریف کو وزیر اعظم منتخب کیاتھا۔ ان کے حق میں 174 ووٹ پڑے۔ ساتھ ہی اس دوران عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی موجود نہیں تھے۔ پی ٹی آئی نے اس سارے عمل کا بائیکاٹ کیا۔
وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے بعد شہباز شریف نے اعلان کیا کہ پارلیمنٹ کی سیکیورٹی کمیٹی کو آرمی اہلکاروں، بیوروکریٹس، آئی ایس آئی کے سربراہ، سیکرٹری خارجہ اور سفیر کی موجودگی میں دھمکی آمیز خط سے آگاہ کیا جائے گا۔ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے پیچھے غیر ملکی سازش تھی تو وہ فوری طور پر وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہو جائیں گے۔
وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد ایوان میں اپنے پہلے خطاب میں شہباز شریف نے کہا کہ یہ پورے ملک کے لیے بڑا دن ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب رہی ہے۔ یہ دن اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ پہلی بار کسی منتخب وزیر اعظم کو قانونی اور آئینی طور پر ہٹایا گیا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے 22ویں وزیراعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیر اعظم بن گئے ہیں جنہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا۔ عمران خان نے 18 اگست 2018 کو پاکستان کے وزیراعظم کے طور پر حلف لیاتھا۔
جب شہباز کی جگہ نواز کا نام لیا گیا
قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے شہباز شریف کے بلامقابلہ وزیر اعظم منتخب ہونے کا اعلان کیا۔ لیکن انہوں نے شہباز کی بجائے نواز شریف کے نام کا اعلان کیا۔ بعد ازاں غلطی کا احساس کرتے ہوئے ایوان سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ نواز شریف دل و دماغ میں بسے ہوئے ہیں اس لیے ایسا ہوا۔
شہباز شریف پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے چھوٹے بھائی ہیں۔ شہباز پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبہ پنجاب کے تین بار وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔
سفر چیلنجوں سے بھرا ہو گا
وزیراعظم شہباز شریف کے لیے ابتدائی مرحلہ چیلنجز سے بھرا ہونے جا رہا ہے کیونکہ قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کے بعد عمران خان نے عوام کے ساتھ سڑکوں پر آ کر نئی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے حامیوں سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ انہیں عوام کی توقعات پر بھی پورا اترنا ہے۔ شہباز کی پارٹی کے پاس صرف 86 ایم پی ایز ہیں اس لیے حکومت چلانے کے لیے انہیں ہمیشہ اتحادیوں کو مطمئن کرنا ہوگا۔
اس کے ساتھ ہی شہباز کی نئی حکومت کے لیے خارجہ پالیسی بالخصوص امریکہ کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ پٹری پر لانا بھی چیلنج ہو گا۔ عمران نے امریکہ پر اپنی حکومت گرانے کی سازش کا الزام لگا کر ناراض کیا ہے۔ شہباز شریف نے چین کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی بات کی ہے۔ ایسی صورت حال میں امریکہ کے ساتھ ساتھ چین سے بھی نمٹنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
ملک میں بڑھتی مہنگائی اور کمزور معیشت کے باعث بھارت اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری ایک بڑا چیلنج ثابت ہو گا، عمران خان کے دور میں پاک بھارت تعلقات انتہائی خراب ہیں۔ عمران کے دور میں ان کی بیان بازی کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات خراب ہوتے چلے گئے۔
پاکستان میں کھانے پینے کی اشیاء مہنگی ہوتی جا رہی ہیں، کچھ اشیاء عام لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں
ملک پر قرضہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے حالیہ جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، اس کے زرمبادلہ کے ذخائر میں ہفتہ وار بنیادوں پر 6.04 فیصد کی کمی ہو رہی ہے۔