Urdu News

ڈاکٹر صالحہ صدیقی کی کتاب ’’خواتین ادب تاریخ و تنقید ‘‘ نسائی ادب کی تفہیم میں اہم اضافہ

ابو شحمہ انصاری، لکھنؤ بیورو چیف،نوائے جنگ برطانیہ

ابو شحمہ انصاری

لکھنؤ بیورو چیف،نوائے جنگ برطانیہ

نسائی ادب پر ڈاکٹر صالحہ صدیقی کی نئی تصنیف ”خواتین ادب تاریخ و تنقید“ منظر عام پر آچکی ہے،اس سے قبل مصنفہ کی تانیثیت پر مبنی اہم کتاب”اردو ادب میں تانیثیت کی مختلف جہتیں“ اہل علم وفن کے درمیان داد و تحسیں حاصل کر چکی ہے۔اس کتاب کی مقبولیت کے سبب اسے پاکستان کا مشہور معروف ادارہ ”کتابی دنیا“ پبلشنگ ہاؤس نے بھی شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس کتاب کے مطالعہ سے قبل ڈاکٹر صالحہ صدیقی کے بارے میں میں کچھ بتانا چاہونگا کہ میں پچھلے کئی سالوں سے ان کی تحریروں کا مطالعہ کرتا آیا ہوں،انہوں نے ہمیشہ نت نئے موضوعات خصوصا خواتین کی خدمات کے مختلف نکات پر قلم فرسائی کی ہے۔ یہ دور حاضر کی نوجوان قلمکاروں میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔بہت کم وقت میں اپنی محنت و کاوش سے اردو ادب میں یہ اپنی پہچان بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔آج اردو کا شاید ہی کوئی رسالہ یا جرائد ہو جہاں ان کی تحریریں شائع نہ ہوتی ہو۔

ڈاکٹرصالحہ صدیقی ایک فعال متحرک قلم کار ہیں،ان کے بے شمار مضامین اب تک اردو ہی نہیں بلکہ ہندی زبان کے رسائل و جرائد کی زینت بن چکے ہیں،وہ نہ صرف مضمون بلکہ فکشن میں بھی دست آزمائی کرتی رہتی ہیں۔ ان کے افسانے،ڈرامے،بچوں کی کہانیاں اور نظمیں بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ڈاکٹرصالحہ صدیقی کی مشہور تصانیف میں اردو ادب میں تانیثیت کی مختلف جہتیں،ضیائے اردو،سورج ڈوب گیا،نیاز نامہ قابل ذکر ہیں۔ ڈراما ”علامہ“ہندی ترجمہ بھی منظر عام پر آچکا ہے۔صالحہ صدیقی کی کتابوں اور ان کی ادبی خدمات کے لیے مختلف اداروں و تنظیموں نے اعزازات و انعامات سے بھی نوازا ہے مثلاان کی کتاب ڈراما ”علامہ“ اور ”نیاز نامہ“ کے لیے اتر پردیش اردو اکیڈمی کی طرف سے انعام دیا گیا،اس کے علاوہ احمد نگر ضلع اردو ساہتیہ پریشد نے ”اردو خدمت گار ایوارڈ“ ہلپ کیئر فاؤنڈیشن نے ”جہانگیر لٹریری ایوارڈ“سے نوازاہے۔صالحہ صدیقی ”ضیائے حق فاؤنڈیشن“کی چیئر پرسن ہیں۔اس فاؤنڈیشن کا مقصدلڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور اردو زبان کو فروغ دینا ہے۔اس کے علاوہ یہ کئی ادبی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔یہ مختلف ادبی پروگراموں اورسرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں۔

زیر نظر کتاب ان کا یقینا اہم کارنامہ ہے۔اس کتاب کو دیکھ کر ہی اندازہ لگ جاتا ہے کہ مصنفہ نے بڑی عرق ریزی سے اس کارنامے کو انجام دیا ہے۔انہوں نے خواتین کی خدمات پر ایک بھرپور کتاب لکھی ہے۔اس کتاب کی ابواب بندی قابل تعریف ہے،ایک ہی نظر میں اس کتاب کا قائل ہونا پڑتا ہے،کور پیج سے لے کر مواد  تک تمام پہلوؤں پر مصنفہ نے باریک بینی سے محنت کی ہے۔یہ کتاب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی تعاون سے ’ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلشنگ ہاؤس پریاگ راج‘ سے شائع ہوئی ہے۔جو دس ابواب پر مشتمل ہیں۔ا س کتاب میں نثری،غیر نثری،شعری،تنقیدی،تحقیقی اور دیگر اصناف میں اردو ادب کی خواتین قلمکاروں پر،مبنی اکتالیس مضامین شامل ہیں۔جو انفرادی اہمیت کے حامل ہیں۔ان میں سے بیشتر مضامین ہندوستان و بیرون ممالک کے مختلف رسائل و جرائد کے زینت بن چکے ہیں۔اس کتاب میں ڈاکٹر صالحہ صدیقی کی سوانحی کوائف کے ساتھ ساتھ ان کی تخلیقات پر ہندستان کے مفکرین و دانشوروں کے تاثرات بھی شامل ہیں،اس کتاب کے سلسلے میں ڈاکٹر صالحہ صدیقی رقم طراز ہیں:

اس کتاب میں خواتین کی نثری،غیر نثری اور شعری اصناف میں کی گئی خدمات کا بھرپور جائزہ پیش کیا گیا ہے۔اس کتاب میں خواتین کی خدمات کو دس ابواب میں منقسم کیا گیا ہے۔تاکہ خواتین کی خدمات کا اعتراف مختلف زاویے سے بھر پور انداز میں کیا جا سکے۔جیسا کہ پہلے بھی کہا گیاکہ خواتین نے خصوصا اردو ادب میں آزادی کے بعد اپنے نام سے لکھنا شروع کیا تھا اور انہوں نے تقریباتمام اصناف میں دست آزمائی کیں۔خواتین نے ان خدمات سے اردو کے دامن کو گر انبار کیا لیکن افسوس کہ خواتین کی ان کاوشوں کو سوائے چند اہم ناموں کے بیشتر خواتین کو نظر انداز کر دیا گیاوہ گوشہئ گمنامی میں رہیں۔ ان کو تحقیق و تدریس کا موضوع بھی نہیں بنایا گیا،یہی وجہ ہے کہ یہ باب آج بھی تشنگی کا احساس رکھتا ہے۔آج بھی بے شمار خواتین قلمکاروں پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔خواتین کی شعری اصناف میں غزل اور نظم پر اسی طرح نثر میں ناول،افسانہ پر تو مواد کی کوئی کمی نہیں ملتی اس کے بر عکس خواتین کی غیر نثری اصناف پر توجہ اس طرح نہیں کی گئی یا تحقیق کا موضوع نہیں بنایا گیا،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خواتین کی خدمات کا یہ حصہ گوشہئ گمنامی میں رہا۔انہیں کمیوں کو دیکھتے ہوئے میں نے ’اردو ادب میں خواتین ہند کی خدمات‘پر یہ کتاب’خواتین ادب تحقیق و تنقید‘ لانے کا فیصلہ کیا اور کوشش کی ہے کہ تمام اصناف میں خواتین کی خدمات کا جائزہ لے سکوں اور ان کے ساتھ انصاف کر سکوں۔

اس کتاب کا انتساب اکیسویں صدی کے معروف و مقبول ناول نگار مشرف عالم ذوقی اور ان کی اہلیہ تبسم فاطمہ صاحبہ کے نام کیا گیا ہیں،جو کرونا میں ہم سے جدا ہو گئے،لیکن صالحہ صدیقی کی اس کتاب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر گئے،وہ لکھتے ہیں:”صالحہ صدیقی کو میں نے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا ہے،وہ ایک متحرک اور فعال قلمکار ہیں جو بہت تیزی سے اپنی پہچان اردو ادب میں بنا رہی ہیں،ان کی کئی تصنیفات جس میں علامہ اقبال پر لکھا ڈراما اور فیمنزم پر ان کی کتاب کو میں اہم مانتا ہوں۔یہ خوش آئند بات ہے کہ نوجوان قلمکار بدلتے وقت کی آہٹ کو محسوس کر رہا ہے،اس لڑکی میں بھی آگے بڑھنے کے بہت امکانات مجھے نظر آرہے ہیں،میں بس یہی کہوں گا کہ لکھو،خوب لکھو اور بے خوف لکھو۔“ (خواتین ادب تاریخ و تنقید)

تبسم فاطمہ بھی اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا:

امید رکھنی چاہیے کہ صالحہ صدیقی کی نسائی ادب پر مبنی کتاب کے منظر عام پر آنے سے ہندوستان کے ذہین اور تانیثیت یا استری ویمرش سے محبت کرنے والے اہل قلم اس کی روشنی میں اس موضوع کو نئی زندگی دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔اردو میں اس طرح کے کام ہونے چاہیے،دلی مبارکباد“(خواتین ادب تاریخ و تنقید)

اردو میں اپنے معیار کی یہ پہلی کتاب ہے۔چونکہ اردو میں نسائی ادب کی تفہیم پر بہت کم کام ہوا،ایسے میں یہ کتاب سنگ میل ثابت ہوگی۔اس کتاب کے سلسلے میں اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے مناظر عاشق ہرگانوی نے بھی لکھا:

اردو ادب میں خواتین  کی خدمات کی نئی جہتیں اور نئے زاویے اس تحقیقی کتاب سے سامنے آتے ہیں۔مختلف ابواب پر مشتمل اس کتاب میں موضوع سے بھرپور انصاف کیا گیا ہے اور نئے نکتے نئے تنقیدی انداز سے اجاگر کیے گئے ہیں۔سمندر کی تہہ سے بازیافت کی اس چھب کی روشنی جداگانہ ہے اور دھج کی جگمگاہٹ قابل دید ہے۔اکیسویں صدی کی یہ کتاب جامع اور بھر پور ہے اور فکری جہات کو نئی معنویت بخشتی ہے۔“(خواتین ادب تاریخ و تنقید)

اسی طرح اکیسویں صدی کے معروف و مقبول ہر دل عزیز ممتاز فکشن نگارشموئل احمد نے بھی مصنفہ کی اس کتاب پر اپنے خیال کا اظہار کیا وہ لکھتے ہیں:

صالحہ صدیقی نے بہت کم وقت میں اردو ادب کی دنیا میں اپنی ایک منفرد پہچان بنائی ہے،خصوصا نسائی و تانیثی ادب میں جو کہ آسان بات نہیں ہے،لیکن اس کے علاوہ ان کا اقبال پر جو ڈراما ہے وہ عام روش سے ہٹ کر ہے یہ ان کی تخلیقیت کی غماز ہے۔صالحہ تخلیقیت سے بھرپور ہے،علامہ اقبال پر ان کا ڈراما ان کی تخلیقیت کی گواہی دیتا ہے،اور یہ ڈراما اپنی نوعیت کی بالکل منفرد تخلیق ہے۔مجھے امید ہے صالحہ کی تازہ تصنیف ”خواتین ادب تاریخ و تنقید“ کو بھی ادبی حلقوں میں دیگر تصنیفات کی طرح پیار اور توجہ حاصل ہوگا۔ اس عمدہ کاوش اور اردو شعری و ادبی خدمات کے لیے میں ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ان سے مستقبل میں کئی امیدیں وابستہ ہیں۔

یہ کتاب بلا شبہہ مصنفہ کا اہم کارنامہ ہے۔  1016صفحات پر مشتمل نثری،غیر نثری،شعری،تحقیقی و تنقیدی و دیگر اصناف پر مشتمل خواتین کی خدمات کو ایک کتاب میں جمع کر دینا واقعی قابل تعریف کارنامہ ہے،ظاہر ہے اس ضخیم کتاب پر تفصیلی گفتگو کرنا اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔نسائی ادب اور اس کے تمام نکات کو جاننے کے لیے ڈاکٹر صالحہ صدیقی کی یہ کتاب یقینا اہم ذریعہ ہے جسے ہر طالب علم کو پڑھنا چاہیے۔خصوصا ان طلباء کے لیے یہ ایک کارآمد کتاب ہے جو نسائی ادب میں دلچسپی رکھتے ہیں یا نسائی ادب کے مطالعہ کے شوقین ہیں۔مجموعی طور پر ڈاکٹرصالحہ صدیقی کی یہ کتاب یقینا اردوادب کے سرمایہ میں ایک نیا اضافہ ہے،جسے امید ہے ادبی حلقوں میں وہ مقام دیا جائیگا جس کی یہ مستحق ہے۔میں ڈاکٹر صالحہ صدیقی کو اس عمدہ تحقیقی کام کے لئے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

Recommended