Urdu News

اردو صحافت کی بے باک آواز!پروانہ ردولوی

قلم کے سپاہی پروانہ ردولوی

 اردو صحافت کی بے باک آواز!پروانہ ردولوی

ڈاکٹر شفیع ایوب 
شمع صحافت کا پروانہ 12اپریل 2008کو داغ مفارقت دے گیا،لیکن صحافت کے پروانوں کے دلوں میں پروانہ کی یاد ہمیشہ تازہ رہی۔ پروانہ ردولوی کیا گئے کہ ایک عہد کی تاریخ اپنے دامن میں سمیٹے چلے گئے۔ وہ نہ صرف ایک بے باک صحافی تھے بلکہ ایک بلند پایہ ادیب اور شاعر بھی تھے۔ صحافت سے سیاست تک، ادب سے تاریخ تک،تہذیب سے تکنیک تک وہ کون سا گوشہ تھا جہاں پروانہ ردولوی کی نظر نہ تھی۔ صحیح معنوں میں وہ قلم کے سپاہی تھے، ایک ایسا سپاہی جس نے قلم کی آبرو کو جان ودل سے عزیز رکھا۔ قلم کو اس نے ذریعہئ معاش ضرور بنایا لیکن قلم سے تلوار کا کام بھی لیا۔ قلم سے مظلوموں کی حمایت کی،محکوموں کی وکالت کی، صداقت کی پیروی کی اور اہل اقتدار کی نیند بھی حرام کی۔ اردو میں پروفیشنل جرنلزم کی بنیاد ڈالی۔ مولانا ظفر علی خاں، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا عبدالوحید صدیقی نے اردو صحافت میں زبان کے جس معیار کو قائم کیا تھا، پروانہ ردولوی نے اس کی لاج بچائے رکھی۔ دراصل وہ ایک سچے فن کار تھے جنہوں نے ادب وصحافت کے دامن میں کچھ بیش قیمت لعل وگہرکے نذرانے پیش کئے۔ گیارہ نومبر 1933کو ردولی میں سید غلام اصفر کے گھر ایک بچے نے جنم لیا۔ جس کا نام سیدمیثم تمار رکھا گیا۔ آگے چل کر سید میثم تمار نے ادب وصحافت کی دنیا میں پروانہ ردولوی کے نام سے شہرت حاصل کی۔ پروانہ ردولوی کے والد فوج میں افسر تھے۔ زمینداروں کا خاندان تھا، لیکن آزادی کے بعد دوسرے زمیندار خاندانوں کی طرح یہ خاندان بھی معاشی بحران سے دوچار ہوا۔ اس خاندان نے بہتر مستقبل کے لالچ میں ہجرت نہیں کی بلکہ گنگاوجمنا کے دیش میں رہنا پسند کیا۔ اودھ کا تاریخی قصبہ ردولی ہمیشہ سے علم وادب کا گہوارہ رہا ہے۔ اردو شاعری نے صرف ایک کیٹس پیدا کیا تھا، اسرارالحق مجازؔ۔ردولی کی مٹی نے مجازؔکی پرورش کی تھی۔ اردو شاعری کو خوبصورت نغموں سے نوازنے والے مجازؔ،آنچل کو پرچم بنالینے کا مشورہ دینے والے مجازؔ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو لافانی ترانہ دینے والے مجازؔکا تعلق اسی ردولی سے تھا۔ جدید اردو تنقید کو نئی راہ دکھانے والے، پروفیسرسید احتشام حسین کے سچے جانشین، خوبصورت، خوب سیرت، خوش اخلاق، خوش لباس، ہردلعزیز پروفیسر شارب ردولوی کا تعلق بھی اسی ردولی سے ہے۔جواہرلال نہرویونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد پروفیسر شارب ردولوی نے لکھنؤ میں سکونت اختیار کی ہے، ردولی کی طرف سے ہوکر آنے والی ہوا شاید انہیں ہر وقت تروتازہ رکھتی ہے۔ اسی ردولی کے ایک لائق فرزند سید میثم تمار پروانہ ردولوی بھی تھے جن پہ اردو صحافت نازاں ہے۔ 1950 میں محض 17سال کی عمر میں پروانہ ردولوی نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز یوپی اسمبلی سے بطور رپورٹر کیا،اگلے برس دہلی آگئے اور مولانا عبدالوحید صدیقی کے اخبار”نئی دنیا“ سے وابستہ ہو گئے۔1955میں صنعتی شہر کانپورسے پروانہ ردولوی نے اپنااخبار ”سیاستِ نو“نکالا، 1957 میں یہ اخبار بند ہو گیا اور پروانہ ردولوی نے عروس البلاد بمبئی کا رخ کیا۔ وہاں روزنامہ ”ہندوستان“کے لئے کام کرنے لگے، لیکن اپنے صحافتی رول سے مطمئن نہیں تھے۔ اس لئے 1959میں دوبارہ دہلی آئے اور ”نئی دنیا“سے وابستہ ہوئے۔پروانہ ردولوی نے اپنی تقریباً پچاس سالہ صحافتی زندگی میں درجنوں اخبارات میں کام کیا،لیکن سب سے زیادہ مدت تک انہوں نے ”نئی دنیا“ اور ”پرتاپ“ کے لئے کام کیا، 1969میں انہوں نے روزنامہ ”پرتاپ“جوائن کیا اور 1990تک پرتاپ میں کام کرتے رہے۔ شاید یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہو کہ 22سال تک کے نریندر کے اخبار”پرتاپ“میں کام کرنے والے پروانہ ردولوی نے 1960 میں روزنامہ ”دعوت“ کے لئے بھی کام کیا تھا۔پروانہ ردولوی دراصل پروفیشنل جرنلسٹ تھے، وہ اخبار کی پالیسی کو بہتر سمجھتے تھے اور بطور مدیر اپنی ذمہ داریوں اور اپنے دارہئ اختیار کا انہیں بھرپور احساس تھا۔ شاید اس لئے پنڈت گووند بلبھ پنت کے ساتھ یوپی اسمبلی میں انہوں نے کام کیا اور دہلی میں مولانا عبدالوحید صدیقی کے ساتھ بھی کام کرتے رہے۔ ”دعوت،ملک وملت،نئی دنیااور پرتاپ“ میں ایک سی مہارت سے انہوں نے کام کیا۔ پروانہ ردولوی دھن کے پکے تھے، بات کے سچے تھے، قلم کے دھنی تھے اور کھلا ذہن رکھتے تھے، انہوں نے زندگی کی آخری سانس تک جدو جہد کی۔ کبھی شکست تسلیم نہ کرنے والے سپاہی تھے پروانہ ردولوی دھنی زندگی کے نشیب وفراز سے گزرے لیکن قلم کی حرمت پہ آنچ نہ آنے دی۔پروانہ ردولوی کا دشمن بھی ان کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ زباں کسی نے خریدلی، یہ قلم کسی کا غلام ہے۔ وہ ایسے پارس پتھر تھے کہ جس کو چھودیا وہ سونا ہوگیا۔ وہ ایک چھتنار درخت تھے جس کے سائے میں جہالت کی دھوپ سے جھلسے ہوئے لوگوں نے علم کی جنک ہوا کا لطف اٹھایا۔ وہ بے باک صحافی تھے، خوش فکر شاعر تھے، بہترین خاکہ نگار تھے، تاریخ کا حقیقی شعور رکھنے والے مؤرخ تھے، سماجی حقیقت کی عکاسی کرنے والے ناول اور افسانہ نگار تھے اور اعلیٰ درجہ کے مترجم تھے۔ اخبارات کے لئے ہزاروں مضامین اور فیچر کا ترجمہ کرنے کے علاوہ نیشنل بک ٹرسٹ اور قومی اردو کونسل کے لئے کئی کتابوں کا اردو ترجمہ انہوں نے کیا۔ افسانوی مجموعہ”جونک“کو ایوارڈ سے نوازا گیا، ناول ”آزمائش“کو ہر خاص وعام نے پسند کیا۔ ایک طویل نظم ”شاہنامہئ کربلا“ لکھ کر انہوں نے دونوں جہاں کی نعمتوں سے اپنا دامن بھرلیا۔”کربلا سے کوفے تک“اور ”اسپین سے بوسنیا تک“ جیسی کتابیں لکھ کر انہوں نے اپنے تاریخی شعور کا ثبوت پیش کردیا۔ خاکوں کا مجموعہ ”ہوبہو“ شائع ہوا تو ہم عصر ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں نے اپنا اصل چہرہ دیکھنا گوارا نہ کیا۔ پروانہ ردولوی نے ”صحافت کا استغاثہ“ جیسی کتاب لکھ کر صحافت سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ایک خوبصورت اور قیمتی تحفہ پیش کیا۔ پروانہ ردولوی دل کے صاف آدمی تھے۔ نارا ض بہت جلدی ہوتے تھے لیکن دل میں کدورت نہیں رکھتے تھے۔ ناراض ہوتے تو ناراضگی چھپاتے نہیں تھے۔ راقم السطورکو پروانہ ردولوی نے مولانا عبدالوحیدصدیقی کا ایک واقعہ سنایا تھا۔ 1957میں پروانہ ردولوی نے ممبئی میں روزنامہ ”ہندوستان“میں ملازمت اختیار کرلی تھی۔ وہاں ان کا دل نہیں لگتا تھا کسی طرح دو سال کام کیا۔ 1959میں انہوں نے مولانا عبدالوحید صدیقی کو خط لکھا کہ میں دوبارہ آپ کے پاس آناچاہتا ہوں،مولانا عبدالوحید صدیقی پروانہ ردولوی سے بے حد ناراض تھے کیونکہ چاربرس پہلے پروانہ ردولوی بغیر پیشگی اطلاع کے ان کا اخبار چھو ڑ کر چلے گئے تھے،مولانا عبدالوحید صدیقی نے اپنی ناراضگی کو چھپا یانہیں،پروانہ کے خط کا جواب لکھا کہ فوراً چلے آؤ میری آستین خالی ہے۔ پروانہ واپس دہلی آئے اور مولانا عبدالوحید صدیقی کے اخبار میں نوکری کرنے لگے۔ یہ تھی ان بزرگوں کی محبت اور یہ تھا ان کا کردار۔پروانہ ردولوی اکثر کہاکرتے تھے کہ میں نے مولانا عبدالوحید صدیقی سے صحافت کاالف ب سیکھاہے۔راقم السطورنے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ 12اپریل 2008کو حوض رانی سے جب پروانہ ردولوی کا جنازہ اٹھا ہے تو پرنم آنکھوں سے جنازے کو کندھا دینے والوں میں مولانا عبدالوحید صدیقی کے لائق فرزند، اس وقت کے ممبر پارلیمنٹ اور اخبار”نئی دنیا“ کے مدیر اعلیٰ شاہد صدیقی بھی پیش پیش تھے، شاہد صدیقی نے بارہا کہا ہے کہ میں نے پروانہ ردولوی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
پروانہ ردولوی نے ایک پوری نسل کی ذہنی پرورش کی ہے۔ آج ادب وصحافت کے میدان میں سیکڑوں لوگ ایسے ہیں جو فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے پروانہ ردولوی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ تحسین،محسن اور احسن کی بات کون کرے کہ فرزند بھی ہیں اور شاگرد بھی۔ یہ خاکساربھی خود کو پروانہ ردولوی کا معنوی شاگرد کہنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔شاہد صدیقی،معصوم مرادآبادی، جمشید عادل علیگ، احمد جاوید، حقانی القاسمی،شفیق الحسن جیسے صحافی اور دانشور آج بھی پروانہ ردولوی کی یادوں کو تازہ کرتے رہتے ہیں۔احمد جاوید کا کہنا ہے کہ انہیں پروانہ ردولوی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے دیکھا کہ پروانہ ردولوی بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ترجمہ کے فن میں وہ زبردست مہارت رکھتے تھے۔ وہ بہت تیز اور بہت عمدہ ترجمہ کرتے تھے۔ترجمہ کرتے ہوئے انہیں لغت دیکھنے کی ضرورت شاید ہی کبھی پیش آتی ہو۔ احمد جاوید یاد کرتے ہیں کہ پروانہ ردولوی کے دل میں قوم وملت کا درد تھا۔ وہ ملی اتحاد کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ پروانہ ردولوی کے طرز تحریر کا ذکر کرتے ہوئے مشہور صحافی جمشید عادل علیگ کہتے ہیں کہ پروانہ ردولوی چھوٹے چھوٹے جملے لکھتے تھے اور ہمیں بھی ایسا کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔بڑے بڑے الجھے ہوئے جملے نہ وہ خود لکھتے تھے اور نہ پسند کرتے تھے۔ آج اشتہارات کی دنیا میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے شفیق الحسن کا کہنا ہے کہ پروانہ ردولوی صاف گو تھے۔ غلطی کرنے پر ڈانٹ دیتے تھے لیکن ہر نئے لکھنے والے کی بھرپور مدد کرتے تھے۔ شفیق الحسن آج اپنی کامیابیوں میں پروانہ ردولوی کی محبتوں کا شمار کرتے ہیں۔پروانہ ردولوی اپنی زندگی کے آخری ایام میں اردو صحافت کے گرتے معیار سے کچھ فکر مند تھے۔ لیکن کہا کرتے تھے کہ اردو زبان اور اردو صحافت کا مستقبل روشن ہے۔اردوکی زبوں حالی کے لئے حکومت سے زیادہ اردوو الوں کو ذمہ دار تصور کرتے تھے۔جیب میں صرف چار آنے لے کر دلی آنے والا پروانہ ردولوی آج سیکڑوں صحافیوں اور ادیبوں کو صداقت، شجاعت اور بے باکی کی کروڑوں کی دولت سے مالامال کرکے دہلی کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سورہا ہے۔صحافت کی دنیا میں صداقت کا پیغام زندہ رہے۔ یہی قلم کے سپاہی کو سب سے بڑا خراج عقیدت ہوگا۔


Recommended