سپریم کورٹ نے ہریدوار میں دھرم سنسند میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات کے معاملے میں تحقیقات میں پیش رفت کے بارے میں اتراکھنڈ حکومت سے اسٹیٹس رپورٹ طلب کی ہے۔ جسٹس اے ایم کھانولکر کی صدارت والی بنچ نے یہ حکم جاری کیا۔
عدالت نے درخواست گزاروں کو ہماچل پردیش حکومت کو ہماچل پردیش میں مجوزہ دھرم سنسد کے خلاف دائر تازہ عرضی کی کاپی فراہم کرنے کی اجازت دی۔ عدالت نے درخواست گزاروں کو اس مجوزہ دھرم سنسد کے خلاف مقامی کلکٹر کو رپورٹ کرنے کی چھوٹ دی۔ کورٹ نے12 جنوری کو درخواست گزاروں کو اس بات کی اجازت دی تھی کہ وہ دیگر مقامات پر ہوئے ایسے واقعات کے خلاف مقامی انتظامیہ کواپنی درخواست دیں۔
یہ عرضی صحافی قربان علی اور پٹنہ ہائی کورٹ کی سابق جج اور وکیل انجنا پرکاش نے دائر کی ہے۔ اسی طرح جمعیت علمائے ہند اور مولانا محمود مدنی کی جانب سے ایک اور عرضی دائر کی گئی ہے، جس میں ملک بھر میں مسلم مخالف اشتعال انگیز تقاریر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر سے کئی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ پولیس اشتعال انگیز بیانات دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی۔
عرضی میں یتی نرسمہانند سرسوتی کے بیان کے خلاف اتر پردیش پولیس کے ذریعہ احتجاج میں شامل سو سے زیادہ مسلمانوں کی گرفتاری کا حوالہ دیا گیا ہے۔ درخواست میں 76 وکلاء کی طرف سے چیف جسٹس کو حال ہی میں ہریدوار میں دھرم سنسند میں کی گئی اشتعال انگیز تقاریر کے خلاف لکھے گئے خط کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے اشتعال انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ خاموش تماشائی بنی رہی۔