Urdu News

شرم وحیا اور جدت پسندی

شرم وحیا اور جدت پسندی

کومل شہزادی

مسلم معاشرے کی کامیابی کا انحصار شرم و حیا پر ہی مبنی ہے۔اگر ہم مغربی معاشرے کی تقلید کرکے اسلامی روایات کو پس پشت ڈال کر سمجھتے ہیں کہ ہم کامیابی کی جانب رواں دواں ہیں تو یہ ہماری غلط فہمی ہے بلکہ ہم تباہی کی جانب جارہے ہیں جو دنیا کے ساتھ آخرت بھی تباہ و برباد کردے گی۔شرم وحیا کی بات کی جائے تو اسلامی روایات میں شرم وحیا ہی ہمارا شیوا ہونا چاہیے بحیثیت مسلمان ہماری پہچان اسی میں ہے کہ ہم ایک مسلم معاشرے سے منسلک ہیں۔اور ہمارا ایمان بھی حیا میں ہےاسلام میں حیا کی بے پناہ اہمیت ہے۔نبی کریم ﷺنے حیا کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا ہے۔ اس سے معلوم حیا ایمان کا حصہ ہے۔کہا جاتا ہے کہ جب کوئی آدمی شرم وحیا کے حصار میں رہتا ہے تو ذلت ورسوائی سے اس کا دامن بچا رہتا ہے۔ہمارے معاشرے میں خیروبھلائی اور ہماری زندگیوں میں حسن وخوبی اسی صورت میں پیدا ہوسکتی ہے کہ ہم شرم و حیا کو اپنائیں۔

موجودہ دور کی بات کی جائے تو شرم و حیا اور جدت پسندی کے فروغ میں اہم کردار ہمارے تعلیمی اداروں کا بھی نمایاں ہے۔شرم وحیا کی آنکھوں پر جدت پسندی اور فیشن کی پٹی باندھ دی گئی ہے جو مسلم معاشرے کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے کافی ہے۔چند سوالات جن کا ہمارے قارئین بھی اپنی اپنی الگ رائے رکھتے ہوں گے۔

شرم وحیا اور جدت پسندی کی وجوہات

ہماری نسل شرم وحیا میں آڑ محسوس کرنا

جدت پسندی تعلیمی اداروں کا اہم کردار

شرم وحیا کی جگہ اوپن مائنڈ کا سلوگن

آخر نوجوان نسل جدت پسند کیوں؟؟؟

شرم وحیا محض نام تک محدود

آج کی نسل میں شرم وحیا اور ادب کیوں ختم ہوگیا ہے؟؟

جدیدیت کے نام پر بے حیائی

مندرجہ بالا یہ وہ نکات ہیں جن کو دیکھنے کے بعد بہت حد تک اس عنوان کو کھل کر بیان کرنے کی بجائے  یہ سامنے آتا ہے کہ شرم وحیا کا کم ہونا اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ آخر شرم وحیا پر اور اخلاقیات کا درس نہ ملنا اور بے حیائی کو پروموٹ کرنے میں  ہمارے تعلیمی ادارے پیش پیش ہیں۔یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں کہ جدت پسندی نے ہماری نسل کو کدھر سے کدھر لے آئی ہے اور اس کو محض جدیدیت کا سلوگن دے کر خوب بے حیائی کو پھیلایا جارہا ہے۔مخلوط نظام تعلیم نے اس کی جو کمی تھی وہ بھی پوری کردی ہے۔یعنی ہماری نسل دین سے قربت نہ ہونا اور بے حیائی میں آڑ محسوس نہ کرنا اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنی اسلامی روایات کو ناواقف ہیں۔ آج کل فروری کا مہینہ آتے ہی بےحیائی کا ماحول سرگرم ہو جاتا ہے جو زیادہ تر اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں عروج پر ہے۔شرم وحیا کی آنکھوں پر جدت پسندی اور فیشن کی پٹی باندھ دی گئی ہے جو مسلم معاشرے کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے کافی ہے۔علاوہ ازیں میڈیا بھی شرم وحیا کی دھجیاں اڑانے میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔

اقبال نے ہی تو کہا ہے کہ:

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اسلام اور حیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو روح کا جسم سے ہے۔ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔(مستدرک للحاکم،ج 1،ص176، حدیث:66)

لہٰذا مرد ہو یا عورت اسلام دونوں کو حیا اپنانے کی تلقین کرتا ہے اور حیا کو تمام اخلاقیات کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خُلق ہے اور اسلام کا خُلق حیا ہے۔ (ابن ماجہ،ج 4،ص460، حدیث: 4181)

اگر ایک عورت میں بے حیائی پھیل جائے تو اُس سے کئیں نسلیں تباہ وبربادی کی جانب جاتی ہیں ۔ایک عورت ہی ہے جو شرم و حیا کا درس اپنی نسل کو دے سکتی ہے اور معاشرے میں اس کا اصلاحی پہلو دیکھنے کو مل سکتا ہے۔تعلیمی ادروں کے ساتھ ایک عورت یعنی ماں کی تربیت پر بھی منحصر ہے۔عورتوں کا بہترین زیور حیا ہے:

اسلام میں مسلمان عورتوں کے لیے پردے کی بڑی اہمیت ہے اوربے پردگی بے حیائی کی دین ہے ،اللہ کے مقدس رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’الْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِنَ الإِیْمَانِ‘‘حیا ایمان کا ایک حصہ ہے۔ یہ حدیث صحاح ستہ کی ہے، حوالے ملاحظہ ہوں۔(صحیح بخاری کتاب الایمان، ۱ / ۱۲،حدیث۹، صحیح مسلم: ۱ / ۶۳، حدیث۳۵،سنن الترمذی: ۵ /۱۰، حدیث ۲۶۱۴)

ہم نے اپنی روایات کو چھوڑ کر مغربی تقلید کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔لیکن جدید دور اور بے حیائی لمحہ فکریہ ہے۔شرم وحیا اسلامی معاشرے کی ضرورت ہے۔شرم و حیا سے نا صرف  زندگی سنورے گی بلکہ معاشرے میں بگاڑ بھی ختم ہوگا۔

عفت و عصمت نامی زیور جو ہمیشہ سے ہر تہذیب اور مذہب کی خواتین کے لئے طرہ امتیاز تھا، اسے جدت پسندی کے نام پر اتار پھینکا گیا۔ایک ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم جدت پسندی کا لبادہ اوڑھ کر بے حیائی کو جدید دور کے لوازمات میں شامل کرتے ہیں۔مغربی تعلیم و تہذیب سے بھر پور وابستگی کا بھیانک نتیجہ ہے جسے آج ترقی کا نام دیا جا رہا ہے حالانکہ یہ ترقی نہیں سراسرپستی اور تنزلی ہے۔

سورہ احزاب میں حکم باری تعالیٰ ہے

"يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِْهِنَّ ۚذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗوَكَانَ اللّـٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا (59)

اے نبی صل اللہ علیہ والہ وسلم اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں، یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں، اور اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔"ایک متوازن معاشرے کی تشکیل اور آخرت میں نجات اسلامی احکامات پر عملدرآمد سے ہی ممکن ہےاور مومن بے حیا نہیں ہو سکتا. رب تعالیٰ سے دعا ہے کہ امھات المومنین کے صدقے ہر بیٹی کو شرم وحیا والی اور اسلام کی حقیقی پیروکار بنائے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

دین اسلام کے خلاف عورتوں کو جدت پسندی آزاد خیالی کا نام دیکر بھڑکایاجارہا ہےـکبھی غور کریں کہ ہمارے ہاں جدت پسندی اور ترقی کا کیا نظریہ ہے اور ہم کس چیز کو ترقی پسندی یا سافٹ امیج کہتے ہیں. جہالت یہ نہیں کہ کوئی پڑھا لکھا نہیں بلکہ جہالت یہ ہے کہ ہم پڑھے لکھے ہیں لیکن خود شناس یا خود آگاہ نہیں.بس اسی کا نام موت ہے. ہمارا معاشرہ اور قوم جس موت مر رہی ہے وہ ناشناسائی کی موت ہے،بے شعوری کی موت ہے.عدم آگاہی کی موت ہے اور ایسی موت جس کا شعور اور ادراک نہیں.

اگر کوئی نماز پڑھے تو وہ رجعت پسند اور کوئی رقص ابلیس کرے تو وہ جدت اور ترقی پسند.

آج مردوں عورتوں میں جو برائیاں نظر آرہی ہیں ان کی اصل وجہ بے حیائی اور بے شرمی ہی ہے۔ اس لیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’إذا لم تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَاشِئْتَ۔‘‘(جب تجھ کو حیا نہیںتو جو چاہے کر) ۔ (بخاری شریف،مشکوٰۃ،ص۱۳۴(

اور ایک حدیث پاک میں حضور نے حیا کی تعریف اور بے حیائی کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرما یا: ’’الحیائُ مِن الإیمان، والإیمانُ فی الجنَّۃِ، والبَذَائُ مِن الجَفَائِ، والجَفَائُ فی النَّار‘‘(مشکوٰۃ ص ۱۳۴بحوالہ احمد وترمذی(

حیا ایمان کا ایک جز ہے اور ایمان دار جنت میں جائے گا اور بے حیائی جفا ہے اور جفاکار جہنم میں جائے گا۔

المختصر،شرم وحیا اسلام کا زیور ہے۔حیا انسان کی فطری صفت ہے۔جو شخص جتنا حیادار ہوگا اتنا ہی وہ اپنے معاشرے میں باوقار سمجھا جائے گا۔جدت پسندی کے نام پر شرم وحیا کی مسلم معاشرے میں جو دھجیاں اڑائی جارہی ہیں یہ محض تباہی کی راہ ہے اور کچھ نہیں۔علامہ اقبال ؒنے کافی عرصہ قبل متنبہ کیا تھا :

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی

خدا کرے کہ جوانی تیری رہے بے داغ

Recommended