Urdu News

سابق مرکزی وزیر ششی تھرور کیوں اور کیسے بنے شفیق الحسن کے پرستار

تصویر میں سابق مرکزی وزیر، کانگریس کے ممتاز لیڈر ششی تھرور اور اسکائی ایڈورٹائزنگ کے مینیجنگ ڈائریکٹر شفیق الحسن

تحریر: ڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو، نئی دہلی

 اس پُر آشو ب دور میں جب ہر چہار جانب سے رنجیدہ کرنے والی خبریں مل رہی ہوں تبھی کوئی اچھی خبر مل جائے تو لق و دق صحرا میں نخلستان کا گمان گزرتا ہے۔ خبر ملی کہ دہلی میں ممبر آف پارلیامنٹ کنور دانش علی کی رہائش گاہ پر افطار کی دعوت تھی۔ کنور دانش علی اتر پردیش کے تاریخی شہر امروہہ سے ممبر آف پارلیامنٹ ہیں۔ شفیق الحسن کے بڑے اچھے دوست ہیں۔ اس دعوت افطار میں ہندوستان کے سابق نائب صدر حامد انصاری صاحب اور اپنی خطرناک انگریزی کے لئے مشہور سابق مرکزی وزیر ششی تھرور صاحب بھی موجود تھے۔ ششی تھرور بھی شفیق الحسن کی طرح خوبصورت اور خوش لباس ہیں۔ شفیق الحسن کے لئے یہ بات باعث مسرت تھی کہ ان کی خدمات سے ششی تھرور نہ صرف واقف ہیں بلکہ انھوں نے گزارش کی کہ اس وہاٹس ایپ گروپ میں ان کا نام بھی شامل کر لیا جائے جن کو شفیق الحسن صبح سویرے خبریں وہاٹس ایپ پر بھیجتے ہیں۔ تو اب یہ طے پایا کہ صبح صبح شفیق الحسن صاحب ششی تھرور کا دروازہ بھی کھٹکھٹا آئیں گے۔

اس سے پہلے ہمیں وہ دن بھی یاد ہے جب صبح صبح خبر ملی کہ شفیق الحسن صاحب نے اپنی بے مثال خدمت کے نو سو پچاس (950) دن مکمل کر لئے۔ پھر ہم سبھی کو ایک ہزار دن مکمل ہونے کا انتظار کرنے لگے۔  تاکہ ہم ہزار دن مکمل ہونے کا جشن منائیں اور اس کام کی اہمیت کا ہر خاص و عام کو اندازہ ہو۔یوں تو بھائی شفیق الحسن سود و زیاں سے بے نیاز ہو کر ملک و ملت کی تعمیر کے کام میں لگے رہتے ہیں اور بہت سے کارنامے انجام دے رہے ہیں لیکن ابھی گزشتہ چند برسوں میں انھوں نے جو سب سے بڑا اور انقلابی کام کیا ہے وہ ہے صبح آٹھ بجے پابندی سے لوگوں تک خبریں پہنچانے کا کام۔ گزشتہ برس ان کی اس بے مثال خدمت کے اعتراف میں انڈیا اسلامک سینٹر نئی دہلی میں انھیں ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ہندستان سے باہر دبئی میں بھی ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ انھیں بھارت سماج رتن ایوارڈ برائے جرنلزم سے بھی نوازا گیا۔سچ بات تو یہ ہے کہ جب ہر طرف فیک نیوز کے چرچے ہوں، وہاٹس ایپ یونیورسٹی کی اصطلاح رائج ہو چکی ہو ایسے میں لوگوں تک معتبر اور کارآمد خبریں پہنچانے کا خیال شفیق الحسن کے زرخیز دماغ میں ہی آسکتا تھا۔ وہ بھی مفت کی سروس۔ یہ پتہ ماری کا کام تھا، سب کے بس کی بات نہیں۔ وہ جو میں عرض کر رہا تھا کہ شفیق الحسن نئی ایجادات سے، ٹیکنالوجی کی ترقی سے خود بھی فائدہ اُٹھاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملک و قوم کی نئی نسل بھی اس سے فائدہ اُٹھائے۔ اسمارٹ فون توہم سب کے ہاتھوں میں ہے لیکن اسمارٹ فون کا جتنا اسمارٹ استعمال شفیق الحسن نے کیا ہے وہ کسی اور سے ممکن نہ ہوا۔انھوں نے جب وہاٹس ایپ نیوزکلپنگ سروس کا آغاز کیا تو کسے اندازہ تھا کہ یہ تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں۔ لیکن اس با ہمت اور دھُن کے پکّے شخص نے جس تسلسل کے ساتھ اپنی خدمات جاری رکھیں وہ لگ بھگ ناقابل ِ یقین ہے۔ ہم دن مہینے گنتے رہے اور وہ تاریخ رقم کرتے رہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک شخص بلا ناغہ ہر صبح ٹھیک آٹھ بجے اُردو، ہندی اور انگریزی اخبارات سے کام کی خبروں کا انتخاب کرتا ہے اور مفت میں ہزاروں لوگوں کو وہاٹس ایپ پہ بھیجتا ہے۔ اب یہ سلسلہ ہزار دنوں کو پار کر کے ایک نئی تاریخ رقم کر رہا ہے۔ میں بادشاہ ِ وقت ہوتا تو شفیق الحسن کو نہ جانے کتنی جاگیریں بخش دیتا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ شفیق الحسن کو جو دعائیں مل رہی ہیں وہ سیکڑوں انعامات، اعزازات اور سیکڑوں جاگیروں سے بڑھ کر ہیں۔

خاکسار شفیع ایوب نے بہت پہلے اپنے پیارے دوست شفیق الحسن کی دل نواز شخصیت پر ایک بھرپور خاکہ نما مضمون لکھا تھا۔ مکمل مضمون پھر کبھی لیکن اس مضمون کا ایک حصہ ابھی ششی تھرور والے واقعے کے طفیل میں آپ بھی پڑھ لیجئے۔   

اچھی صورت، اچھی سیرت، اچھی سوچ، اچھی آواز،اچھی نظر، اچھے کپڑے اور بھی بہت سی اچھائیوں کو ایک پیکر میں ڈھال دیں تو شفیق الحسن کی شخصیت بن جائے گی۔ شفیق الحسن حُسن کے متلاشی ہیں۔ حُسن ِ ظاہر کے بھی اور حُسنِ باطن کے بھی۔ حُسن تاج محل میں ہو یا ممتاز محل میں، وہ حُسن پہ فریفتہ ہیں۔ ہر حسین شئے ان کی کمزوری ہے۔ لیکن یہ کمزوری اس قدر مثبت اور پاکیزہ ہے کہ قربان جایئے۔ اس حُسن کی تلاش کاروبار میں کی تو ”اسکائی“ (آسمان) تک پہنچے اور زندگی میں حُسن کی تلاش کی تو حنائی رنگ کے ایک غنچہ نوخیز نے ”حنا شفیق“ بن کر زندگی کو منور کر دیا۔ جب شفیق الحسن اور حنا شفیق کو گفتگو کرتے ہوئے کسی شاعر نے دیکھا ہوگا اسی وقت یہ شعر نازل ہوا ہوگا۔

  صبا کو  اس گل  رعنا سے ہم سخن پا کر

یہ سوچتا ہوں کہ موضوع سخن کیا ہے

انشاء اللہ خاں انشاء کو اردو والے ”دریائے لطافت“ کی وجہ سے اور ہندی والے”رانی کیتکی کی کہانی“ کی وجہ سے یاد رکھتے ہیں۔لیکن ہم ایک اور وجہ سے بھی انشاء کو یاد کرتے ہیں۔ یقیناًً میر انشاء نے شفیق الحسن اور ان کی بیگم کو ایک ساتھ کہیں دیکھا ہوگا اور اسی وقت یہ شعر کہا ہوگا۔

نزاکت اس گل رعنا کی دیکھو انشاء

نسیم صبح جو چھو جائے رنگ ہو میلا 

مجھے تو یہ بھی لگتا ہے کہ کبھی فرصت کے لمحات میں، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہری گھاس کے لان میں شفیق الحسن نے مشہور ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری کو کوئی واقعہ سنایا ہوگا۔ شاید یہ ان دنوں کی بات ہے جب شفیق الحسن جامعہ سے گریجوایشن کر رہے تھے اور علی سردار جعفری جامعہ میں وزیٹنگ پروفیسر ہو کر آئے تھے۔ ایک روز جب مغرب کی اذان ہو رہی تھی، ہر شئے ویران ہو رہی تھی۔ باوضو شفیق الحسن نے خدا وند کریم کی حمد و ثناء کے بعد علی سردار جعفری کے کان میں کچھ کہا۔ علی سردار جعفری نے ان پاکیزہ خیالات کو نظم کی صورت کاغذ پہ اتار دیا۔ ان کی مشہور نظم ”نومبر میرا گہوارہ“ کا  یہ حصہ شفیق الحسن کی کہانی ہے۔  

میرے لغزیدہ لغزیدہ قلم نے 

ایک رنگیں اور خوشبودار کاغذ پر 

بڑی مشکل سے رکتے رکتے

حرف عشق لکھا

اور کسی کی بار گاہِ حسن میں بھیجا

حیا کی شمع جل اُٹھی حریم دل ربائی میں

گھُمایا سر جھکا کر دیر تک کنگن کلائی میں

شفیق الحسن کی ایک بڑی پریشانی یہ ہے کہ وہ ہر کام بہت عمدہ کرتے ہیں۔ بہت عمدہ سے کمتر وہ کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ ان کی مجبوری ہے۔ ان کو ہر کام کا سلیقہ آتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے شفیق صاحب کے لئے ہی کسی منچلے شاعر نے کہا تھا کہ

ان سے ضرور ملئے سلیقے کے لوگ ہیں

یہ قتل بھی کرتے ہیں بڑے اہتمام سے

شفیق صاحب اگر آپ کو چائے پلائیں گے تو چائے اچھی ہو اس بات کا خیال تو رکھتے ہی ہیں، اس بات کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ کپ بھی خوبصورت ہوں۔ خوبصورتی کا ایسا شیدائی میں نے بہت کم دیکھا ہے۔ لیکن حریص بالکل نہیں ہیں۔ جو حسن جہاں نظر آئے اسے یار دوستوں کے لئے اپنی آنکھوں میں چھپا لاتے ہیں۔ کشمیر کی دھرتی سے شفیق صاحب کو ایک خاص لگاؤ رہا ہے۔ شری نگر کی ڈل جھیل ہو یا چشمہ شاہی، نشاط باغ ہو یا شالیمار باغ، جب جس مقام کے دیدار کو گئے تو واپسی پہ تمام حسن اپنی آنکھوں میں سمیٹ کر لائے۔ایک مرتبہ نئی دنیا کے دفتر میں تشریف لائے، شاہد صدیقی صاحب سے ملاقات کے بعد واپس جانے لگے تو مجھ سے کہا شفیع صاحب فری ہوں تو چلئے باہر کہیں لنچ کرتے ہیں۔ جمعہ کا دن تھا،ان دنوں شفیق صاحب کے پاس ہلکے رنگ کی ایک خوبصورت ہونڈا سٹی کار تھی، ہم پہلے انڈیا گیٹ پہنچے، وہاں اکبر روڈ کے قریب ایک مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد ہم لنچ کی تلاش میں نکلے۔ یہاں بھی شفیق صاحب کی نظر خوب سے خوب تر کی تلاش میں تھی۔ ان دنوں لاجپت نگر میں ہلدی رام کے ریسٹورنٹ کی بڑی دھوم تھی۔ ہم وہاں پہنچے، لنچ کیا اور واپس نظام الدین آئے لیکن درمیان کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا ہوگا جس میں شفیق صاحب مجھ سے کوئی نئی بات دریافت نہ کرتے رہے ہوں۔ یہی ان کی خوبی ہے۔ وہ اپنے سے بہت کم علم رکھنے والوں سے بھی کچھ نہ کچھ سیکھ لیتے ہیں۔   

 میں ان دنوں ہفتہ وار ”نئی دنیا“ میں بطور سب ایڈیٹر ملازم تھا۔ دہلی کے نظام الدین ویسٹ میں شاہد صدیقی کے گھر کی دوسری منزل پر ”نئی دنیا“ کا دفتر تھا۔ جمشید عادل علیگ، احمد جاوید، انجم نعیم، حقانی القاسمی جیسے صحافیوں کے ساتھ میں ایک طفل مکتب بھی تھا۔ حقانی بھائی اور انجم

نعیم صاحب کبھی کبھی دفتر آتے تھے۔ احمد جاوید اور جمشید عادل کا روز کا ساتھ تھا۔ جمشید عادل کی حاضر جوابی اور خطرناک شرارتوں سے اکثر لطف پیدا ہوتا لیکن کبھی کبھی حالات سنگین بھی ہو جاتے۔”نئی دنیا“ کے ساتھ ہی روزنامہ ”عوام“ کا دفتر بھی تھا۔ ”عوام“  برائے نام چھپتا تھا۔ شاہد صدیقی صاحب کبھی اس اخبار کی طرف توجہ بھی نہیں دیتے تھے۔ اس وقت ”عوام“ کے ایڈیٹر ایک ایسے صاحب تھے جو شکل سے منحوس تھے اور انھیں کچھ آتا جاتا بھی نہیں تھا۔ لیکن خود کو ایڈیٹر سمجھتے تھے۔ اس اخبار کی پیج میکنگ کے لئے شام میں ممتاز اعظمی آیا کرتے تھے۔ ممتاز اعظمی بڑے مزے کے انسان۔ بات کرتے ہوئے منہ سے ایک عجیب سی سیٹی بجاتے تھے۔ تھے تو پیج میکر لیکن ایڈیٹر صاحب سے سو گنا زیادہ علم اور فہم و فراست رکھتے تھے۔ یاروں کے یار تھے۔ ہنسی مذاق میں سب کہہ سن لیتے تھے۔ چھوڑتے کسی کو نہیں تھے۔ واقعات بہت یاد تھے، کچھ جاسوس قسم کے بھی آدمی لگتے تھے، نہ جانے کہاں کہاں کی خبریں، قصے کہانیاں جمع رکھتے تھے۔ خراب سے خراب بات بھی

اتنے دلچسپ پیرائے میں کہتے تھے کہ سننے والا برا نہ مانے۔ شاہد صدیقی صاحب کا ہم سبھی احترام کرتے تھے، جمشید عادل تو بس سجدہ ہی نہیں کرتے تھے۔ عموماً شاہد صاحب کا مذاق اڑانے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔ ہم میں سے کسی کو شاہد صدیقی صاحب سے کوئی شکایت ہوتی تب بھی ہم اس خوف سے بات نہیں کرتے کہ ہم میں سے ہی کوئی ان کا مخبر بھی مشہور تھا۔ کچھ کہتے تو بات دوسرے دن ان تک پہنچ جاتی۔ لیکن ممتاز اعظمی کہاں ماننے والے تھے۔ بڑے پیار سے کام کرتے کرتے شاہد صدیقی صاحب کو بھی لپیٹ لیا کرتے تھے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان دنوں اس اخبار کے پبلشر اور غالباً مالک بھی شفیق الحسن صاحب تھے، اور وہ ممتاز اعظمی کے حملوں سے پوری طرح محفوظ تھے۔ جب کبھی شفیق الحسن صاحب کا ذکر آتا تو ممتاز صرف اتنا کہہ کے خاموش ہو جاتے کہ شفیق صاحب نیک انسان ہیں۔ اسی اخبار میں یامین انصاری بھی کام کرتے تھے۔ یامین صاحب کو پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ سیکھنے کی چاہت تھی۔ خوش اخلاق اور با مروت تھے۔  یامین انصاری اپنے کام سے مطلب رکھتے، اپنا کام خوش اسلوبی سے انجام دیتے، سنجیدہ گفتگو کرتے تھے۔ اسی وقت ایک موقعے پر شفیق الحسن نے کہا کہ یامین صاحب بہت آگے جائیں گے۔ بعد میں یامین انصاری نے اپنی صحافتی فتوحات سے شفیق صاحب کی پیشن گوئی کو حرف حرف سچ ثابت کر دکھایا۔ یعنی شفیق صاحب خودتو گوہر نایاب ہیں ہی وہ ہیرے کی پہچان کرنے والے جوہری بھی ہیں۔

شفیق الحسن آج کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ اب ان کی شہرت ہندستان سے باہر پہنچ چکی ہے۔ عالمی پیمانے پر ان کی خدمات کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اپنے میدان میں ان کی شاندار کامیابی بہتوں کے لئے قابل رشک تو کچھ کے لئے قابل حسد بھی ہے۔ لیکن جو لوگ شفیق الحسن کے سر پہ کامیابی کا سہرا دیکھ رہے ہیں ان میں سے بہت کم لوگوں نے ان کا کانٹوں بھرا بستر دیکھا ہے۔ یہ کامیابی انھیں کسی نے تھال میں سجا کر نہیں دی ہے۔ یہ کامیابی انھوں نے اپنی فطری صلاحیت، اپنی صلابت روی، مسلسل محنت، لگن اور مثبت فکر سے حاصل کی ہے۔

(مضمون نگار ڈاکٹرشفیع ایوب، جے این یو، نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں)

تصویر میں سابق مرکزی وزیر، کانگریس کے ممتاز لیڈر ششی تھرور اور اسکائی ایڈورٹائزنگ کے مینیجنگ ڈائریکٹر شفیق الحسن

شفیق الحسن، ششی تھرور، حامد انصاری، کنور دانش علی، افطار پارٹی، ممبر آف پارلیامنٹ

Recommended