ابوشحمہ انصاری، دہلی
جہانگیر پوری علاقے میں اب بھی کشیدگی برقرار ہے۔ کثیر تعداد میں پولیس اور پیراملٹری فورس کی موجودگی نے لوگوں کا اِدھر اُدھر جانا بھی مشکل کر دیا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے علاقے کے لوگ خوف کے عالم میں ہیں اور آس پاس کی دکانیں بھی نہیں کھل پا رہیں۔ پولیس کی تعیناتی کی وجہ سے آس پاس کے بیشتر راستے بند ہیں اور باہری لوگوں کے آنے جانے پر بھی پابندی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مقامی کاروباری نہ ہی دکان کھول پا رہے ہیں، اور نہ ہی کھانے پینے کی چیزیں آسانی سے دستیاب ہیں۔ جہانگیر پوری تشدد کے ذمہ دار چند ہی لوگ ہیں، لیکن اس سے ایک بڑا کاروباری طبقہ اور مقامی باشندے متاثر ہو رہے ہیں۔
جہانگیر پوری جامع مسجد کے پاس جن لوگوں کی دکانیں ہیں، ان میں سے ایک انور کا کہنا ہے کہ ''تہوار کا وقت ہے اور ایک ہفتے سے تشدد کے سبب دکان بند ہے۔ ایسے میں کھانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔ روز کمانے اور کھانے والے ہم لوگوں کے لیے پریشانی کھڑی ہو گئی ہے۔'' مسجد سے 20 میٹر کی دوری پر ایک مندر ہے جس کے پاس حلوائی کی دکان ہے۔ اس دکان کو چلانے والے شیام لالہ بتاتے ہیں کہ ''ایک دن میں اچھی کمائی ہوتی تھی، لیکن اس پورے تشدد میں صرف وہی بکا ہے جو آس پاس کے لوگ خرید رہے ہیں۔ صرف دکان کھول کر بیٹھ جاتے ہیں، نہ تو باہر جا سکتے ہیں اور نہ ہی کمائی ہو رہی ہے۔''
جہانگیر پوری میں جس کشل چوراہے کے پاس یہ پورا واقعہ ہوا، اس کے سامنے جو دکان ہے اس میں دپیک کی لوہا ویلڈنگ کی دکان ہے اور ان کا بھی گھر دکان کے نزدیک ہے۔ دیپک صبح دکان کھول کے بیٹھ جاتے ہیں، لیکن راستے بند ہونے کی وجہ سے کچھ کام نہیں مل رہا۔ دیپک کا کہنا ہے کہ ''6 ہزار روپے دکان کا کرایہ ہے، اس مہینے میں صرف 15 دن کام ہوا ہے اور ابھی ایک ہفتے سے کام کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ ایسے میں کرایہ کیسے دیں گے اس بات کی فکر ہے۔ گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے اور قرض لے کر ایک ہفتے سے گھر چلا رہا ہوں۔