Urdu News

اُردو صحافت کا دو سوسالہ جشن: اُردو زبان وصحافت کو بلندیوں تک پہنچانے کے لیےجدوجہد کرنے والے صحافی، اُدباوشعرا

اُردو صحافت کا دو سوسالہ جشن

بابائے اُردو مولوی عبدالحق جو ایک عالم اور ماہر لسانیات تھے۔ عبدالحق 20 اپریل 1870 کوبھارت کے ضلع میرٹھ (اب ہاپوڑ ضلع، اتر پردیش) کے شہر ہاپوڑ میں پیدا ہوئے تھے۔ B.Aکی ڈگری علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1894 میں حاصل کی۔ جہاں وہ اس وقت کے کچھ آنے والے سیاست دانوں / اسکالرز کی صحبت میں تھے جن میں شبلی نعمانی، سید احمد خان، راس مسعود، محسن الملک، سید محمود، تھامس واکر آرنلڈ، اور بابو مکھرجی شامل تھے۔

گریجویشن کے بعد، حق حیدر آباد دکن چلے گئے اور اردو پڑھانے، سکھانے، ترجمہ کرنے اور اپ گریڈ کرنے کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ وہ سر سید کے سیاسی اور سماجی خیالات سے بہت متاثر تھے، اور ان کی خواہش کے مطابق، انگریزی اور سائنسی مضامین سیکھے۔ سید احمد خان کی طرح، عبدالحق صاحب نے اردو کوبھارت کے مسلمانوں کی زندگی اور شناخت پر ایک بڑے ثقافتی اور سیاسی اثر کے طور پر دیکھا۔

عبدالحق صاحب آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا سکریٹری مقررہوئے، جس کی بنیاد سرسید احمد خان صاحب نے 1886 میں مسلم معاشرے میں تعلیم اور دانشوری کے فروغ کے لیے رکھی تھی۔جنوری 1902ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشن کانفرنس علی گڑھ کے تحت ایک علمی شعبہ قائم کیا گیا جس کانام انجمن ترقی اردو تھا،1912 میں عبدالحق صاحب انجمن کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ ان کے تحت تنظیم نے ترقی کی اور متعدد رسالے شائع کیے جن میں ”اُردو میں جنوری 1921 میں، سائنس، 1928 میں، اور ہماری زباں، 1939 میں“ شائع ہوئی۔ اس عرصے کے دوران انہوں نے عثمانیہ کالج (اورنگ آباد) کے پرنسپل کے طور پر بھی خدمات انجام دیں اور 1930 میں اس عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ اور اس طرح انہوں نے اُردو کی خدمت کرتے ہوئے اپنی ساری عمر گزار دی اور 16 اگست 1961کو آقائے حقیقی سے جاملے۔

پنڈت ہری چند اختر ایک معروف صحافی تھے جو اُردو غزل کے معروف شاعر بھی تھے۔ وہ 15 اپریل 1901 کو ہوشیار پور، پنجاب میں ایک برہمن خاندان (کوشل) میں پیدا ہوئے۔ وہ اردو، فارسی اور انگریزی زبانوں کے استعمال پر عبور رکھتے تھے۔ میٹرک کے فوراً بعد منشی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے (انگلش) کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ لاہور میں پارس، لاہور کے لیے لکھتے ہوئے گزارا، جو اخبار اس وقت لالہ کرم چند کی ملکیت اور ایڈٹ تھا۔ہری چند اختر ایک ایسے شاعر تھے جن کی توجہ کی صنف غزل تھی۔ وہ روایت پسند تھے لیکن سادگی کے لیے ان کا انداز منفرد تھا۔ ان کی غزلوں کا مجموعہ کفر و ایمان ان کی زندگی میں شائع ہوا۔اور یکم جنوری 1958 کو ان کا انتقال ہو گیا۔

”ابن صفی“اسرار احمد کا قلمی نام تھا، جو ایک مشہور افسانہ نگار،اردو کے ناول نگار اور شاعرتھے۔ابن صفی 26جولائی 1928کو برطانوی بھارت کے الٰہ آباد اترپردیش میں پیداہوئے۔انہوں نے تعلیم بھی الٰہ آباد یونیورسٹی سے حاصل کی۔ ان کی اہم تصانیف 125 کتابوں پر مشتمل سیریز جاسوسی دنیا اور 120 کتابوں پر مشتمل عمران سیریز تھیں، جن میں طنزیہ کاموں اور شاعری کا ایک چھوٹا سا اصول تھا۔ ان کے ناولوں میں اسرار، ایڈونچر، سسپنس، تشدد، رومانس اور کامیڈی کے امتزاج کی خصوصیت تھی، جس نے جنوبی ایشیا میں ایک وسیع قارئین میں بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل کی۔26جولائی 1980کوابن صفی دنیائے فانی سے دنیائے باقی کی جانب کوچ کرگئے۔

مولوی محمد ذکاء اللہ یا منشی ذکاء اللہ ایک برطانوی ہندوستانی اردو مصنف اور مترجم تھے۔ انہوں نے اُردو میں بھارت کی تاریخ کی چودہ جلدوں پر مشتمل تالیف تاریخ ہند(کمپائلڈ ہسٹری آف انڈیا) لکھی۔ذکاء اللہ صاحب 20 اپریل 1832 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محمد ثناء اللہ مغل درباروں میں سے ایک شہزادوں کے ٹیوٹر تھے۔ انہوں نے اپنے دادا حافظ محمد بکا اللہ صاحب کے ماتحت اپنی تعلیم کی تعریف کی اور دہلی کالج میں پروفیسر رام چندر کے تحت تعلیم حاصل کی، جو ایک الگ ریاضی کے استاد تھے۔ ان کے دیگر اساتذہ میں مملوک علی نانوتوی بھی شامل ہیں۔

انہوں نے دہلی کالج میں بطور اسکالر اپنی خدمات کا آغاز کیا اور 55 سال کی عمر تک محکمہ تعلیم میں خدمات انجام دیتے رہے۔ دہلی کالج میں انہوں نے مغربی علوم، تاریخ اور فلسفہ کے متن کا اُردو میں ترجمہ کرنے میں ورناکولر ٹرانسلیشن سوسائٹی کی سربراہی بھی کی۔ 1855 میں وہ بلند شہر اور مراد آباد کے اسکولوں کے ڈپٹی انسپکٹر مقرر ہوئے۔ 1866 میں اس کے بعد انہیں دہلی کے نارمل اسکول کا ہیڈ ماسٹر مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد انہیں 1872 میں الہ آباد کے موئیر سینٹرل کالج میں اردو کے ذریعہ مغربی سائنس پڑھانے کے لیے منتقل کر دیا گیا۔ وہ 1877 میں الہ آباد سے پنشن پر ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ قبل انہیں خان بہادر اور شمس العلماء کے خطاب سے نوازا گیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے کچھ عرصہ علی گڑھ میں گزارا اور سرسید احمد خان اور ان کے دوست مولوی سمیع اللہ کی ادبی تحریک کے لیے کام کیا۔ وہ علی گڑھ تحریک کے ابتدائی حامی تھے اور انہوں نے اپنے ہم عصر مولوی نذیر احمد اور الطاف حسین حالی کے ساتھ سائنٹفک سوسائٹی کیلئے بھی کام کیئے۔اور 7نومبر 1910میں ان کا انتقال ہوگیا۔

آغا حشر کاشمیری ایک اردو شاعراور ڈرامہ نگار تھے۔ ان کے کئی ڈرامے بھارت کی شیکسپیئر کے موافقت تھے۔آغا حشرکاشمیری 3اپریل 1879کو برطانوی بھارت کے بنارس اترپردیش میں پیدا ہوئے۔انہوں نے اسٹیج ڈراموں میں دلچسپی ظاہر کرنا شروع کی اور 14 سال کی عمر میں بمبئی چلے گئے اور وہاں بطور ڈرامہ نگار اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔آغا حشر کاشمیری کا پہلا ڈرامہ آفتاب محبت 1897 میں شائع ہوا تھا۔ انہوں نے بمبئی میں نیو الفریڈ تھیٹریکل کمپنی میں صرف 15 روپے کی تنخواہ پر ڈرامہ رائٹر کے طور پر اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کا آغاز کیا۔ مریدِ شک، کمپنی کے لیے ان کا پہلا ڈرامہ، شیکسپیئر کے ڈرامے دی ونٹر ٹیل کی موافقت تھا۔ یہ کامیاب ثابت ہوا اور بعد میں اس کی اجرت بڑھا کر40 روپے کر دی گئی۔ اس کے بعد انہوں نے شیکسپیئر کے ڈراموں کی کئی اور موافقتیں لکھیں، جن میں شہیدِ ناز (یا ہندی میں اچوت دامن)، پیمائش کے لیے پیمائش، 1902) اور شبیدِ حواس (کنگ جان، 1907) شامل ہیں۔انہوں نے اپنی زندگی میں اور بھی بہت سے ڈرامے لکھے اورسب کے سب کافی مقبول بھی ہوئے۔آخرکار یکم اپریل 1935میں ان انتقال ہوگیا۔

بابائے اُردو مولوی عبد الحق،پنڈت ہرچند اختر،اسرار احمد ابن صفیؔ،مولوی ذکاء اللہ اور آغا حشری کاشمیری صاحبان نے اُردو کے فروغ کے لیے اپنی پیش بہا خدمات انجام دیں۔لیکن آج اُردو کو سیاست دانوں نے مذہبی رنگ دیکر اُردو زبان کو ختم کرنے کی سازش کو فروغ دینے کا کام کررہے ہیں۔اُردو کو مخصوص کمیونٹی کی زبان کہہ کر اُردو زبان کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جبکہ اُردو لشکری زبان ہے جس میں تمام زبانوں کو شامل کرکے ایک ایسی زبان بنائی گئی ہے۔جس کو اپنی روز مرہ کی بات چیت میں شامل کیے بغیر کوئی ایک دن بھی نہیں گزار سکتاہے۔

وہیں اُردو کے فروغ کے لیے اردو زبان کے عصری تقاضے،مسائل اور حل پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔اور اُردو کے فروغ کے لیے پرائمری، مڈل اورہائی اسکول تک اردو تعلیم کی ٹوٹی ہوئی کڑی کو جوڑنے کے لیے مؤثر اقدامات اور منظم پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ ان پالیسیوں کو وضع کرتے وقت ہمیں ان وجوہات پر غور کرنا ہوگا، جس کی وجہ سے اُردو کی ترقی سے متعلق سرکاری پالیسی مسلسل ناکام ہوتی رہی ہے۔اُردو کی تعلیم وتعلم کی حوصلہ شکنی آزادی کے بعد سے مسلسل ہو رہی ہے۔مگر اس سلسلے میں صرف حکومت کو موردِ الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے۔اہل اُردو(اُ ردو سے محبت کرنے والے) اور اُردو کا دم بھرنے والے اس کے لیے کم ذمہ دار نہیں ہیں۔ حکومت کے معاندانہ رویہ(اِڈورسری)کی ہم مخالفت نہیں کرتے، مظالم کو سہتے اورسازشوں کو نظر انداز کرتے جاتے ہیں،اور کررہے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی آپ کو بتادیں کہ کسی بھی زبان کو زندہ رکھنے اور اس کی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے اس کی درس وتدریس کوجاری رکھنا نہایت ضروری ہے۔ اردو زبان کے مسائل بے شمار ہیں اور ان مسائل پر آنسو بہانے والے بھی بے شمار ہیں۔ ان مسائل پر جذباتی تقریر کرنے والے اور اعداد و شمار پیش کرکے اردو کی زمینی حقیقت پیش کرنے والے بھی کم نہیں ہیں، لیکن صرف جذباتی تقریر کرنے سے اردو کا فروغ ہونے سے رہا۔جب تک اردو کے چاہنے والے براہ راست کوئی مؤثر اقدام نہیں اٹھاتے اُردو کا فروغ نہیں ہوسکتا۔اس کے لئے اپنی گریباں میں بھی جھانکنے کی ضرورت ہے کہ اُردو کی بدحالی کا رونارونے والے کتنے لوگ اُردو اخبارات و رسائل منگاتے ہیں، اور پڑھتے ہیں؟اور کتنے لوگ اپنے بچوں کو اُردو پڑھنے لکھنے کی ترغیب دیتے ہیں؟۔

 اُردو تعلیم کو کارگر بنانے کے لیے ایسے اقدامات بھی کرنے ہوں گے جن کے تحت اُردو تعلیم کو بازار کی ضرورتوں (روزی /روٹی)سے وابستہ کیا جاسکے۔ اور تکنیکی اور انتظامی سطح پر ان کی افادیت نمایاں کردار ادا کرسکے۔دیگر علوم و فنون کی اُردو میں منتقلی نہ ہونا اور درسی کتابوں کی عدم دستیابی اُردو ذریعہ تعلیم کے بطور اختیار کرنے کی راہ میں زبردست مزاحم ہے۔

اُردو کے فروغ کے لیے حکومت اور اُردو داں سے گزارش اور اپیل ہے کہ اُردو کے فروغ کے لئے ہر پلیٹ فارم(فورم)اورمنچ سے آواز بلند کریں اور ہر وہ مؤثراقدامات کریں جو آج اُردو کے فروغ کے لئے سخت ضروری ہے۔جیسے:

(1)         ہم سب اُردو کومادری زبان تسلیم کریں اور ہرجگہ،ہرسطح پر اس کے فروغ کے لئے کام کریں۔ اور عوام الناس میں اُردو کے تعلق سے بیداری پیدا کریں۔

(2)         ہم سب لوگوں کو ہرجگہ،ہرسطح پر فارم وغیرہ بھرتے وقت یاسرکار کو دیگر اطلاعات(جانکاری) دیتے وقت فارم وغیرہ میں اُردو زبان کو اپنا مادری زبان/ Ragister / Declareکریں۔

(3)         آج ہم سب کو اس بات کو لے کر کام کرنے کی ضرورت ہے کہ اُردو پورے بھارت واسیوں کی زبان بن سکے جو واقعی میں ہے اور یہ کسی مخصوص طبقہ،کمیونٹی کی زبان نہیں ہے۔ اس غلط فہمی کو دورکرنا ہے۔

(4)         اُردو اخبار،میگزین،رسالہ وغیرہ وغیرہ کی ہم سب کو زبردست طریقہ سے مارکیٹنگ کرنے کی ضرورت ہے۔

(5)         اُردو زبان کو آج سے ہم سب اپنے دن چاریہ(روز مرہ)کی زندگی میں اپنائیں۔ اپنے ویزیٹنگ کارڈ،لیٹر پیڈ،شائن بورڈ،نیم پلیٹ وغیرہ پر استعمال کریں۔

(6)         اُردو کے تعلق سے سرکار کی تمام اسکیم،اسکالر شپ وغیرہ کو آنے والی پیڑھی(نسل)تک پہنچائیں۔ بیداری پیدا کریں۔

(7)        اُردو صحافت Urdu journalism / Mass communicationکو فروغ کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

(8)         آج سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ اس کا فائدہ اُٹھانا چاہئے۔اُردو کے فروغ کے لئے سوشل میڈیا کا کثرت سے استعمال ہونا چاہئے۔

(9)         نئی تعلیمی پالیسی (New Education Policy)کے تحت اُردو کو کافی فروغ مل سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ اُردو کو اپنایا جائے۔اُردو سے محبت رکھنے والے،اُردو کے دم بھرنے والے اُردو کے فروغ اور بقا کے لئے اس (New Education Policy)کے تحت کام کریں اور اسکااستفادہ اُردو کے فروغ کے لئے اُٹھائیں۔

(10)         دارالحکومت بھوپال کی برکت اللہ سے لے کر ریاست کی کسی بھی یونیورسٹی میں اُردو کا مناسب انتظام نہ ہونے سے طلبا کو خواہش اور تمنا کے باوجود اس زبان کا شوق ترک کرنا پڑرہا ہے۔ان یونیورسٹیوں میں تمام زبانوں کی سہولتیں ہیں لیکن اُردو کے ساتھ سوتیلہ رویہ اپنا جارہا ہے،ان یونیورسٹیوں میں اُردو کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے۔اسی طرح ریاست کی تمام چھوٹے بڑے کالجز اور یونیورسٹیوں میں اُردو کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اور سیدھے سرکار سے بات چیت کرنی ہوگی،سوال کرنا ہوگا کہ آخر اُردو زبان کے ساتھ یہ غیر ذمہ دارانہ رویہ کیوں اپنایا جارہا ہے؟۔

بے۔نظیر انصار ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفیئر سوسائٹی

اُسیا رسورٹ (کوینس ہوم) کوہ فضا،احمدآباد پیلس روڈ،بھوپال۔۱۰۰۲۶۴(ایم۔پی)

 ای۔میل:     taha2357ind@gmail.com

Recommended