اسلام آباد، 25؍اپریل
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ہفتے کے روز کہا کہ وہ بلوچ لاپتہ افراد کا معاملہ ملک کے "طاقتور حلقوں" کے ساتھ اٹھائیں گے۔ تاہم ماہرین نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے کہ کیا الفاظ کا ترجمہ عمل میں ہوگا کیونکہ نو منتخب وزیراعظم کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔ جبری گمشدگیوں کے معاملے نے پاکستان بالخصوص صوبہ بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں کی جانب سے ماورائے عدالت اغوا اور جبری گمشدگیوں کو اجاگر کرنے کے لیے دنیا بھر میں کئی مظاہرے ہوئے ہیں۔ شہباز شریف نے بلوچستان کے دورہ سے قبل کہا کہ آج میں ایک وعدہ کر رہا ہوں۔ ڈان اخبار نے شہباز شریف کے حوالے سے کہا کہ میں آپ کے ساتھ لاپتہ افراد کے لیے بات کروں گا۔ "ہم اس مسئلے کو طاقتور حلقوں کے ساتھ اٹھائیں گے، اور ہم ان سے قانون، انصاف اور میرٹ کی بنیاد پر بات کریں گے۔ اگرچہ پاکستان کے نومنتخب وزیر اعظم نے صوبے میں انسانی حقوق کے اہم مسائل کو حل کرنے کا عزم ظاہر کیا، لیکن پاکستانی میڈیا اور دیگر تجزیہ کار اس وعدے کے بارے میں خوفزدہ ہیں۔
عوامی پالیسی کے ماہر رفیع اللہ کاکڑ کے مطابق، شریف حکومت کو سیاسی مفاہمت کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے کیونکہ صوبے میں کوئی بھی بڑا اقتصادی اقدام جاری نسلی تنازعات کو سنبھالے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجوزہ مفاہمت کی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ضروری ہے۔
فوج کو اس بات کی تعریف کرنے کی ضرورت ہے کہ صرف ایک سخت طریقہ کار ہی بہترین طور پر صرف عارضی امن کو یقینی بنائے گا اور یہ کہ نچلی سطح کی شورش تقریباً غیر معینہ مدت تک جاری رہ سکتی ہے چاہے کوئی بھی حفاظتی اقدامات کیوں نہ کیے جائیں۔ پاکستانی صحافی عالیہ زہرہ نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ ترقیاتی منصوبوں سے زیادہ اہم ہے اور انہوں نے مزید کہا کہ الفاظ عمل میں بدل جائیں گے۔
زہرہ نے ٹویٹ کیا کہ وزیراعظم شہباز نے بلوچستان کے لاپتہ افراد کا معاملہ "طاقتور حلقوں" کے ساتھ اٹھانے کا عزم کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ صوبے میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ ترقیاتی منصوبوں سے زیادہ اہم ہے۔ یہ ایک تسلی بخش بیان ہے امید ہے کہ یہ عمل میں بدل جائے گا۔