عامر سہیل
کسی کے اوپر حد درجہ بھروسا کر بیٹھنا بھی، کسی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے، لوگ ہمارے اس قدر اعتبار کو تار تار کر دیتے ہیں اور ہم اس نقصان پر فقط سینہ کوبی کرنے اور ماتم زنی کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے، بعد میں خود کو کوستے رہتے ہیں کہ ہم نے فلاں پہ اعتبار کیا ہی کیوں تھا؟ چوٹ کھا لینے کے بعد ہمیں احساس ہوتا ہے کہ کسی پر اندھا اعتبار کرنا ہماری بہت بڑی غلطی تھی، اور اس غلطی کا خمیازہ ہمیں بے یقینی اور بے اعتباری کی صورت میں بھگتنا پڑا، اس لیے کسی پر اعتبار کرنے یا اس کو اپنا کوئی راز بتانے سے قبل ہزار بار سوچ لینا چاہیے، کہ آخر کو وہ ایک انسان ہے اور آج کا دور پرُ فتن دور ہے جس میں کسی انسان پر اعتبار کر لینا بہت مشکل ٹھہرتا ہے، اور ایسے میں کسی پر آنکھیں بند کیے اعتبار کر لینا تو بہت ہی مشکل۔
اور پھر ہر بندے پہ اعتبار کر بیٹھنا تو سمجھو کسی کو پلیٹ میں اپنی ناموس رکھ کر دینے کے مترادف ہے کہ اس کے بعد وہ جو چاہے کرے، اس عجب دور میں کسی پر اعتبار کر لینا ہی کافی ہے اور اندھے اعتبار کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جو شخص ایسا کرتا ہے وہ پھر بعد میں کفِ افسوس ملتا پھرتا ہے اور روتا پھرتا ہے، ابھی دو دن پہلے دیکھ لیں، دو تین کیس سامنے آئے جس میں ماں باپ نے اپنے بچوں پر اندھا اعتبار کیا اور اس کے نتیجے میں نقصان کو برداشت کیا، ایک بچی جس کیلئے اغوا۶کا کیس درج کروایا گیا تھا اور اس کے ماں باپ کا خیال تھا کہ ان کی بیٹی کو شاید کوئی زبردستی اغوا۶کر کے لے گیا، کیونکہ وہ اپنی بچی پر اندھا اعتبار کر بیٹھے تھے، انہوں نے بہت جتن کیے اپنی بیٹی کو بازیاب کروانے کے واسطے، مگر سب کچھ بے سود ہو گیا۔
مگر جب اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہوا تو یہ عقدہ وا ہوا کہ بچی کراچی سے بھاگ کر پنجاب آئی تھی اور وہ بھی اپنی ہی مرضی سے، اسی دن ایک اور بچی بھی ڈیرہ غازی خان سے برآمد ہوئی جس کی بات معلوم ہوا کہ وہ بھی شاہ رخ کے ساتھ اپنی مرضی سے بھاگی، یہ سب اندھے اعتبار اور حد سے زیادہ بھروسے کا نتیجہ نکلا کہ ماں باپ کو اب پوری زندگی ہزیمت کا سامنا رہے گا اور شریک انہیں طعنے مار کر ستاتے رہیں گے، اس طرح کے کئی کیسز روز ہمارے سامنے آتے ہیں کہ ہم نے کسی قریبی رشتہ دار پر بہت زیادہ بھروسا کیا ہوتا ہے یا پھر کسی قریبی دوست، یار پر، اور وہ ہمیں چکما دے جاتا ہے اور ہم اس دھوکے کے بعد یہی سوچ کر پچھتا رہے ہوتے ہیں کہ کاش ہم نے اس پر اس قدر اعتبار کیا ہی نہ ہوتا، نہ ہم اس قدر اعتبار کرتے اور نہ ہمیں آج یہ خمیازہ بھگتنا پڑتا، غلطی ہم نے خود کی اور اب اس کا آزار بھی تو ہم کو ہو گا اور اس سے براہ راست نقصان بھی ظاہر ہے ہمارا مقسوم ٹھہرا، میں یہ نہیں کہتا کہ کسی پر بھروسا کیا ہی نہ جائے، کیونکہ اس طرح بھی پھر دنیا کا نظام نہیں چل سکتا، مگر کم از کم جس پر بھروسا کرنا چاہ رہے ہیں اسے پہلے کسی کسوٹی پر پرکھ تو لیں، اس کے اعتبار کو کسی موقع پر آزما تو لیں، یہ تو نا ہو کہ ہم اس پر پہلی ہی فرصت میں بھروسا کر بیٹھیں اور وہ دھیرے دھیرے ہماری ذات کی جڑوں کو کاٹتا رہے اور پھر ایک دن ہماری ذات کا تناور درخت دھڑام سے نیچے گرے، اس لیے بھروسے واسطے آزمائش بھی شرط ٹھہری، ورنہ بعد میں جب کسی کو شکایت بھی کریں گے تو فوری کہے گا کہ یار آپ پہلے سوچ لیتے، پہلے تو آپ دوستی دوستی کھیلتے رہے اور جب دوستی میں بے اعتباری کا زہر گھول دیا گیا تو اب ایک دوسرے کے راز عیاں کرتے پھر رہے ہو، ایک دوسرے کو نیچا دکھاتے پھر رہے ہو، یعنی ہمارے ساتھ تو جو ہوا سو ہوا، معاشرہ بھی ہم سے روٹھ گیا اور یہ سب کچھ کس چیز کی دین ہے، حد درجہ بھروسے کی اور اعتبار کی۔
جہاں الٹا اثر ہو زندگی عاشق کی پھر کیا ہو
محبت ترک کر دیں ہم تو دل میں درد پیدا ہو
کہوں کیونکر کہ دنیا میں تم ہی بے مثل و یکتا ہو
زمانہ دیکھ ڈالا ہے مری آنکھوں نے تم کیا ہو
تماشا دیدہ کے قابل ہے بسمل کا اے قاتل
تعجب کیا جو چشم جوہر شمشیر بینا ہو
تمھیں ہم دوست کیا جانے تمھیں ہم دوست کیا مانے
زمانہ ہی نہیں اس کا کہ اب کوئی کسی کا ہو
کرے تو دفن اے خورشید رو گر تفتہ جانوں کا
تو سبزے کی جگہ تار شعار مہر پیدا ہو
کہا جب شعلہ رو ان کو ملا الزام یہ مجھ کو
عجب اس کا نہیں گر تو مری صورت سے جلتا ہو
یہ کیا کہتے ہو میرا بھید کھلنے کا نہیں تجھ پر
بتا دیں حال ہم دل کا اگر بند قبا کیا ہو
شکن تیری جبیں پر ہو کہ بل تیری طبیعت میں
ہمیں پروا نہیں اس کی مقدر اپنا سیدھا ہو
یہیں ہو جائے طے آپس میں جھگڑا کل خدا جانے
تمہارے واسطے کیا ہو ہمارے واسطے کیا ہو
بلانے سے نہ آپ آئیں نہ مجھ کو آپ بلوائیں
نہ ایسا ہو نہ ویسا ہو تو پھر فرمائیے کیا ہو
زمانے کو پلٹتے دیر کیا لگتی ہے یہ سمجھو
بھروسا ہم کریں تم پر جو دنیا پر بھروسا ہو
تمہاری آنکھ ہے بیمار دل بیمار ہے اپنا
کسی کے ہم مسیحا ہیں کسی کے تم مسیحا ہو
کدورت دل کی کیوں نکلے اگر آنسو نکلتے ہیں
جو صحرا ہو تو صحرا ہو جو دریا ہو تو دریا ہو
محبت کی نہ دیں گے داد وہ خط کو مرے پڑھ کر
وہاں انصاف پھر کیا ہو جہاں اندھیرا کھاتا ہو
نہ مٹ جائے قیامت کیا نہ پس جائیں فرشتے کیا
زمین حشر پر جب آپ کا نقش کف پا ہو
ہمارے قتل کرنے تو تری آنکھوں سے اے ظالم
نگاہیں خود یہ کہتی ہیں ذرا ہم کو اشارہ ہو
ہوا ہے دشمن جانی وف ظالم میری صحت کا
برا ہو اس دعا گو کا کہا تھا جس نے اچھا ہو
عیادت کو مری آ کر وہ یہ تاکید کرتے ہیں
تجھے ہم مار ڈالیں گے نہیں تو جلد اچھا ہو
اگر عزر جفا کر لو زبان کچھ تھک نہ جائے گی
شکایت کس طرف مٹ جائے جب تم سے نہ اتنا ہو
برائی غیر کی کرتے ہو تم اچھا نہیں کرتے
برا وہ مان جائیں داغؔ یہ سن کر تو اچھا ہو
داغؔ دہلویؒ