آسام کے گورنر جناب جگدیش مکھی جی، آسام کے مقبول اور پرجوش وزیر اعلیٰ جناب ہیمنت بسوا سرما جی، مرکزی کابینہ میں میرے سینئر ساتھی جناب سربانند سونووال جی، جناب رامیشور تیلی جی، ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے جناب رتن ٹاٹا جی۔ حکومت آسام میں وزیر جناب کیشب مہانتا جی، اجنتا نیوگ جی، اتل بورا جی اور اسی سرزمین کی سنتان اور بھارت کی انصاف کی دنیا کو، جنہوں نے بہترین خدمات فراہم کرائیں اور آج پارلیمنٹ میں قانون بنانے کے عمل میں ہمارا ساتھ دے رہے جناب رنجن گوگوئی جی، محترم ارکان پارلیمنٹ ، ارکان اسمبلی اور میرے پیارے بھائیو اور بہنو!
प्रोठोमोटे मोई रोंगाली बिहू, आरु ऑसोमिया नॉबो-बॉर्खोर शुब्भेस्सा जोनाइसु !
جشن اور امنگ کے اس موسم میں آج مجھے آسام کی ترقی کو مزید تقویت دینے کے لیے اس عظیم الشان تقریب میں آپ کے جوش و جذبے میں شامل ہونے کا موقع ملا ہے۔ آسام کی ترقی کی دھارا کو مزید رفتار دینے کی آج یہ جو شاندار تقریب ہے اس میں مجھے آپ کی امنگ کےساتھ جڑنے کا موقع ملا ہے۔آج اس تاریخی شہر سے میں اسمیا شان، آسام کی ترقی میں اہم رول ادا کرنے والی یہاں کی تمام عظیم سنتانوں کو یاد کرتا ہوں اور بصد احترام ان کو نمن کرتا ہوں۔
ساتھیو،
بھارت رتن بھوپین ہزاریکا کا گیت ہے-
बोहाग माठो एटि ऋतु नोहोय नोहोय बोहाग एटी माह
अखोमिया जातिर ई आयुष रेखा गोनो जीयोनोर ई खाह !
آسام کی لائف لائن کو انمٹ اور تیز بنانے کے لیے، ہم دن رات آپ کی خدمت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اسی عزم کے ساتھ میں بار بار آپ کے درمیان آنے کا من کرتا ہے۔ آسام آج امن کے لیے، ترقی کے لیے متحد ہو کر جوش سے بھرا ہوا ہے، اور میں نے ابھی کچھ دیر پہلے ہی کاربی آنگلانگ میں دیکھا ہے اور میں محسوس کر رہا تھا کہ کیا امنگ، کیا جوش، کیا، خواب، کیا عزم ہے۔
ساتھیو،
کچھ دیر پہلے میں نے ڈبرو گڑھ میں نئے بنے کینسر اسپتال اور وہاں بنی سہولیات کو بھی دیکھا۔ آج یہاں آسام کے 7 نئے کینسر اسپتالوں کو قوم کے نام وقف کیا گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ سات سال میں ایک اسپتال کھل جائے تو بھی بہت زیادہ خوشی منائی جاتی تھی۔ آج وقت بدل چکا ہے، ایک دن میں ایک ریاست میں 7 اسپتال کھل رہے ہیں۔ اور مجھے بتایا گیا ہے کہ تین مزید کینسر اسپتال آنے والے چند مہینوں میں اور تیار ہو جائیں گے آپ کی خدمت میں۔ ان کے علاوہ آج ریاست میں 7 نئے جدید اسپتالوں کی تعمیر کا کام بھی شروع ہو رہا ہے۔ ان اسپتالوں سے آسام کے کئی اضلاع میں اب کینسر کے علاج کی سہولت میں مزید اضافہ ہوگا۔ اسپتال ضروری تو ہے اور حکومت بنا بھی رہی ہے۔ لیکن میں ذرا کچھ الٹی ہی نیک خواہشات دینا چاہتا ہوں۔ اسپتال آپ کے قدموں میں ہے، لیکن میں نہیں چاہتا ہوں کہ آسام کے لوگوں کی زندگی میں اسپتال جانے کی جانے کی مصیبت آجائے۔ میں آپ سب کی صحت کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ آپ کے خاندان میں سے کسی کو بھی اسپتال جانا نہ پڑے اور مجھے خوشی ہوگی کہ ہمارے تمام نئے بنائے گئے اسپتال خالی ہی رہیں۔ لیکن اگر ضرورت پڑ جائے کینسر کے مریضوں کو سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سےموت سے مقابلہ کرنے کی نوبت نہیں آنی چاہیے اور اس لئے آپ کی خدمت کے لیے بھی ہم تیار ہیں گے۔
بھائیو اور بہنو،
آسام میں کینسر کے علاج کے لیے اتنا وسیع، اتناجامع سسٹم اس لئے اہم ہے کہ یہاں بہت بڑی تعداد میں کینسر ڈیٹیکٹ ہو تا رہا ہے۔ آسام ہی نہیں ، شمال مشرق میں کینسر ایک بہت بڑا مسئلہ بن رہا ہے۔ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہمارے غریب خاندان ہوتے ہیں، غریب بھائی بہن ب ہوتے ہیں، ہمارے متوسط طبقے کے خاندان ہوتے ہیں۔ کینسر کے علاج کے لئے کچھ سال پہلے تک یہاں کے مریضوں کو بڑے بڑے شہروں میں جانا پڑتا تھا۔ اور اس کی وجہ سے ایک بہت بڑا مالی بوجھ غریب اور مڈل کلاس خاندانوں پر پڑتا تھا۔ غریب اور مڈل کلاس کی اس پریشانی کو دور کرنے کے لیے گزشتہ 5-6 سالوں سے جو قدم یہاں اٹھائے گئے ہیں، اس کے لئے میں سابق وزیراعلی سربانند سونووال جی کو اور موجودہ وزیر اعلیٰ ہیمنت جی اور ٹاٹا ٹرسٹ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں ، انہیں ب بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آسام کینسر کیئر فاؤنڈیشن کی شکل میں کینسر کے سستے اور موثر علاج کا اتنا بڑا نیٹ ورک اب یہاں تیار ہے۔ یہ انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہے۔
ساتھیو،
آسام سمیت پورے شمال مشرق میں کینسر کے اس بہت بڑے چیلنج سے نمٹنے کے لیے مرکزی حکومت بھی مسلسل کوششیں کر رہی ہے۔ راجدھانی گوہاٹی میں بھی کینسر کے علاج سے جڑے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔ اس سال کے بجٹ میں شمال مشرق کی ترقی کے لیے 1500 کروڑ روپے کی ایک خاص اسکیم پی ایم ڈیوائن (PM-DevINE) میں بھی کینسر کے علاج پر فوکس کیا گیا ہے۔ اس کے تحت کینسر کے علاج کے لیے ایک ڈیڈیکیٹیڈ فیسی لٹی گوہاٹی میں تیار ہوگی۔
بھائیو اور بہنو،
کینسر جیسی سنگین بیماریاں ایک خاندان کے طور پر اور ایک معاشرے کے طور پر ہمیں جذباتی اور مالی طور پر کمزور کر دیتی ہیں۔ اس لیے گزشتہ 7-8 سالوں سے ملک میں صحت کو لیکر بہت بڑے اور وسیع طور پر کام کیا جارہا ہے۔ ہماری حکومت نے سات معاملوں پر یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ صحت کے سپت رشیوں پر فوکس کیا ہے۔
پہلی کوشش یہ ہے کہ بیماری کی نوبت ہی نہ آئے۔ اسی لیے تدارکی طبی دیکھ ریکھ پر ہماری حکومت نے بہت زور دیا ہے۔ یہ یوگ، فٹنس، صفائی ستھرائی، ایسے کئی پروگرام اس کے لیے چل رہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اگربیماری ہوگئی تو شروع میں پتہ چل جائے۔ اس کے لیے ملک بھر میں نئے ٹیسٹنگ سینٹر بنائے جا رہے ہیں۔ تیسرا فوکس یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے گھروں کے قریب ہی ابتدائی طبی امداد کی بہتر سہولیت ہو۔ اس کے لیے پرائمری ہیلتھ سینٹروں کو پورے ملک میں ویلنیس سینٹر کی شکل میں ایک نئی طاقت کے ساتھ اس کا ایک نیٹ ورک آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ چوتھی کوشش یہ ہے کہ غریب کو اچھے سے اچھے اسپتال میں مفت علاج ملے۔ اس کے لیے آیوشمان بھارت جیسی اسکیموں کے تحت 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج آج حکومت ہند کی طرف سے دیا جا رہا ہے۔
ساتھیو،
ہمارا پانچواں فوکس اس بات پر ہے کہ اچھے علاج کے لیےبڑے بڑے شہروں پر انحصار کم سے کم ہو۔ اس کے لیے ہماری حکومت صحت کے بنیادی ڈھانچے پر بے معمولی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ آزادی کے بعد ہی جتنے بھی اچھے اسپتال بنے، وہ بڑے شہروں میں ہی بنے۔ تھوڑی سی بھی طبیعت بگڑ تو بڑے شہر بھاگو۔ یہی ہوتا رہا ہے۔ لیکن 2014 کے بعد سے ہماری حکومت اس صورتحال کو بدلنے میں مصروف ہے۔ سال 2014 سے پہلے ملک میں صرف 7 ایمس تھے۔ اس میں سے بھی ایک دہلی والے کو چھوڑ دیں تو کہیں ایم بی بی ایس کی پڑھائی نہیں ہوتی تھی، کہیں او پی ڈی نہیں لگتی تھی، کچھ ادھورے بنے پڑے تھے۔ ہم نے ان سبھی کی اصلاح کی اور ملک میں 16 نئے ایمس کا اعلان کیا۔
ایمس گوہاٹی بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔ ہماری حکومت ملک کے ہر ضلع میں ایک میڈیکل کالج ضرور ہو اس مقصد پر کام کر رہی ہے۔ 2014 سے پہلے ملک میں 387 میڈیکل کالج تھے۔ اب ان کی تعداد بڑھ کر قریب قریب 600 تک پہنچ رہی ہے۔
ساتھیو،
ہماری حکومت کا چھٹا فوکس اس بات پر بھی ہے کہ ڈاکٹروں کی تعداد کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔ گزشتہ سات سالوں میں ایم بی بی ایس اور پی جی کے لیے 70 ہزار سے زائد نئی سیٹیں شامل کی گئی ہیں۔ ہماری حکومت نے 5 لاکھ سے زیادہ آیوش ڈاکٹروں کو بھی ایلوپیتھک ڈاکٹروں کے برابر تسلیم کیا ہے۔ اس سے بھارت میں ڈاکٹر اور مریضوں کے درمیان تناسب میں بھی بہتری آئی ہے۔ حال ہی میں حکومت نے ایک بہت بڑا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت نے طے کیا ہے کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں 50 فیصد سیٹوں پر اتنی ہی فیس لی جائے گی جتنی کسی بھی سرکاری میڈیکل کالج کی لی جاتی ہے۔ اس کا فائدہ ہزاروں نوجوان کو مل رہا ہے۔ ملک کو آزادی کے بعد جتنے ڈاکٹر ملے، ہماری حکومت کی کوششوں سے اب اس سے بھی زیادہ ڈاکٹر اگلے 10 برسوں میں ملنے جارہے ہیں۔
ساتھیو،
ہماری حکومت کا ساتواں فوکس ہیلتھ سروسز کی ڈیجیٹلائزیشن کا ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ علاج کے لیے لمبی لائنوں سے چھٹکارا ملے، علاج کے نام پر ہونے والی دقتوں سے نجات ملے۔ اس کے لیے ایک کے بعد ایک اسکیمیں نافذ کی گئی ہیں۔ کوشش یہ ہے کہ مرکزی حکومت کی اسکیموں کا فائدہ پورے ملک کے شہریوں کو، ملک میں کہیں بھی مل سکے، اس کے لئے کوئی بندش نہیں ہونی چاہیے۔ یہی ون نیشن، ون ہیلتھ کا جذبہ ہے۔ اسی نے 100 سال کی سب سے بڑی عالمی وبا میں بھی ملک کو تقویت دی، چیلنج سے نمٹنے کی طاقت دی۔
ساتھیو،
مرکزی حکومت کی اسکیمیں ملک میں کینسر کے علاج کو قابل رسائی اور سستا بنا رہی ہیں۔ ایک اور اہم کام ہماری حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ غریب کے بیٹا اور بیٹی بھی ڈاکٹر کیوں نہ بن سکیں، گاؤں میں رہنے والا بچہ بھی، جس کو زندگی میں انگریزی میں پڑھائی کا موقع نہیں ملا؟ وہ ڈاکٹر کیوں نہ بن سکے، اور اس لیے اب حکومت ہند اس سمت میں آگے بڑھ رہی ہے کہ جو اپنی مادری زبان میں، مقامی زبان میں لوگ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے بھی حکومت سہولت فراہم کرائے، تاکہ غریب کا بچہ بھی ڈاکٹر بن سکے۔
گزشتہ برسوں میں کینسر کی متعدد ایسی ضروری دوائیں ہیں، جن کی قیمتیں تقریباً آدھی ہوگئی ہیں۔ جس سے ہر سال کینسر کے مریضوں کے لیے تقریباً 1000 کروڑ روپے کی بچت ہو رہی ہے۔ پردھان منتری جن اوشدھی کیندروں کے ذریعے 900 سے زیادہ ادویات سستے داموں دستیاب ہوں، جو دوائیں 100 روپے میں ملتی ہیں، وہ 10 روپے ، 20 روپے میں مل جائیں، اس کا انتظام کیا گیا ہے۔ ان میں سے بہت سی دوائیں کینسر کے علاج سے متعلق ہیں۔ ان سہولیات سے بھی مریضوں کو سینکڑوں کروڑوں روپے کی بچت ہو رہی ہے۔ کسی خاندان میں بزرگ ماں باپ ہوں، ڈائی بٹیز جیسی بیماری ہو تو ایک متوسط طبقہ، نچلے متوسط طبقے کے خاندان کا مہینے کا 1000، 1500، 2 ہزار روپے دوا میں خرچ ہوتا ہے۔ جن اوشدھی کیندر میں، وہ خرچ 80، 90، 100 روپے میں پورا ہو جاتا ہے، یہ فکر ہم نے کی ہے۔
یہی نہیں آیوشمان بھارت یوجنا کے تحت فائدہ اٹھانے والوں میں بہت بڑی تعداد میں کینسر کے مریض ہیں۔ جب یہ یوجنا نہیں تھی تو بہت سارے غریب خاندان کینسر کے علاج سے بچتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر اسپتال جاؤ تو بیٹے کے لیے قرض کرنا پڑے گا اور یہ قرض میرے بچوں کو ادا کرنا پڑے گا۔ بوڑھے ماں باپ مرنا پسند کرتے تھے، لیکن بچوں پر بوجھ بننا پسند نہیں کرتے تھے، اسپتال نہیں جاتے تھے، علاج نہیں کرواتے تھے۔ غریب ماں باپ اگر علاج کی کمی سے مریں تو ہم کس کام کے لیے ہیں ؟ خصوصی طور پر ہماری مائیں بہنیں وہ تو علاج ہی نہیں کراتی تھیں۔ وہ دیکھتی تھیں کہ علاج کے لیے قرض لینا پڑتا ہے، گھر اور زمین بیچنی پڑتی ہے۔ ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو اس فکر سے نجات دلانے کا کام بھی ہماری حکومت نے کیا ہے۔
بھائیو اور بہنو،
آیوشمان بھارت یوجنا سے صرف مفت علاج ہی نہیں مل رہا ہے بلکہ کینسر جیسے سنگین امراض کو ابتدا ہی میں ڈیٹیکٹ کرنے میں بھی مدد مل رہی ہے۔ آسام سمیت پورے ملک میں جو ہیلتھ اینڈ ویلنیس سینٹر کھل رہے ہیں، ان میں 15 کروڑ سے زیادہ ساتھیوں کی کینسر سے متعلق جانچ ہوچکی ہے۔ کینسر کی صورت میں تو یہ بہت ضروری ہے کہ جلد سے جلد مرض کا پتہ چلے۔ اس سے مرض کو سنگین ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔
ساتھیو،
ملک میں میڈیکل انفرا اسٹرکچر کو مضبوط کرنے کی جو مہم چل رہی ہے، اس کا فائدہ بھی آسام کو مل رہا ہے۔ ہیمنت جی اور ان کی ٹیم ہر ضلع میں میڈیکل کالج کھولنے کے قومی عزم کے لیے قابل ستائش کوششیں کر رہی ہے۔ مرکزی حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ آسام میں آکسیجن سے لے کر وینٹی لیٹر تک تمام سہولیات لگاتار بڑھتی رہیں۔ کریٹیکل کیئر انفرا اسٹرکچر آسام میں تیزی سے زمین پر اترے اس کے لئے آسام حکومت نے بہترین کام کرنے کی سمت میں کئی قدم اٹھائے ہیں۔
بھائیو اور بہنو،
کورونا کے انفیکشن سے ملک اور دنیا مسلسل مقابلہ کر رہے ہیں۔ بھارت میں ویکسینیشن مہم کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا ہے۔ اب تو بچوں کے لیے بھی کئی ویکسین منظور ہو گئی ہیں۔ پری کوشن ڈوز کے لئے بھی اجازت دے دی گئی ہے۔ اب یہ ہم سبھی کی ذمہ داری ہے کہ وقت پر خود بھی ویکسین لگوائیں اور بچوں کو بھی یہ تحفظ فراہم کرائیں۔
ساتھیو،
مرکز اور آسام کی حکومت چائے کے باغات میں کام کرنے والے لاکھوں خاندانوں کو بہتر زندگی دینے کے لیے خلوص نیت سے کام کر رہی ہے۔ مفت راشن سے لے کر ہر گھر جل یوجنا کے تحت جو بھی سہولیات دستیاب ہیں، آسام حکومت انہیں تیزی سے چائے کے باغات تک پہنچا رہی ہے۔ تعلیم اور روزگار کے مواقع کو بہتر بنانے کے لیے بھی مسلسل کوششیں جاری ہیں۔ ترقی کے فائدے سے معاشرے کا کوئی شخص ،کوئی بھی خاندان محروم نہ رہے، یہ ہماری کوشش ہے، یہ ہمارا عزم ہے۔
بھائیو اور بہنو،
آج ہم بھارت میں ترقی کے جس دھارے کو لےکر ہم چل رہے ہیں، اس میں عوامی بہبود کے دائرے کو ہم نے بہت وسیع کر دیا ہے۔ پہلے صرف کچھ سبسڈی کو عوامی بہبود سے جوڑ کر دیکھا جاتا تھا۔ انفراسٹرکچر کے، کنکٹی وٹی کے پروجیکٹوں کو ویلفئر سے جوڑ کر نہیں دیکھا جاتا تھا۔ جبکہ بہتر کنکٹی وٹی کی کمی سے عوامی سہولتوں کی ڈلیوری بہت مشکل ہوتی ہے۔ پچھلی صدی کے اس تصور کو پیچھے چھوڑ کر ملک اب آگے بڑھ رہا ہے۔ آج آپ دیکھتے ہیں کہ آسام کے دور دراز کے علاقوں میں سڑکیں بن رہی ہیں، برہم پترا پر پل بن رہے ہیں، ریل نیٹ ورک مضبوط ہو رہا ہے۔ ان سب نے اسکول، کالج، اسپتال جانا آسان ہوا ہے۔ روزی روٹی کے مواقع کھل رہے ہیں، غریب سے غیرب کو پیسے کی بچت ہورہی ہے۔ آج غریب سے غریب کو موبائل فون کی سہولت مل رہی ہے، انٹرنیٹ سے جوڑا جارہاہے۔ اس سے اس کے لئے سرکار کی ہر خدمت حاصل کرنا آسان ہوا ہے۔ بدعنوانی سے نجات مل رہی ہے۔
بھائیو اور بہنو،
سب کا ساتھ-سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس کی سوچ کے ساتھ، ہم آسام اور ملک کی ترقی کو رفتار دینے میں لگے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ آسام کی کنکٹی وٹی مضبوط ہو، یہاں سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا ہوں۔ آسام میں سرمایہ کاری کے لئے بہت سے امکانات ہیں۔ ان امکانات کو ہمیں مواقع میں تبدیل کرنا ہے۔ چائے ہو، آرگینک زراعت ہو، تیل سے متعلق صنعتیں ہوں یا سیاحت، آسام کی ترقی کو ہمیں نئی بلندیوں تک لے جانا ہے۔
ساتھیو،
آج آسام کا میرا سفر، میرے لیے بہت یادگار ہے۔ ایک طرف میں ان لوگوں سے مل کرکے آیا ہوں، جو بم بندوق کا راستہ چھوڑ کر امن کی راہ میں ترقی کے دھارے سے جڑنا چاہتے ہیں اور ابھی میں آپ لوگوں کے درمیان ہوں، جو بیماری کی وجہ سے زندگی میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے، ان کے لئے سہولت کا انتظام ہو اور آپ اس میں آپ لوگ آشیرواد دینے آئے ہیں۔ بیہو اپنے آپ میں سب سے بڑا امنگ او ر جوش کا تہوار اور آج ہزاروں ماؤں بہنوں نے ، میں آسام میں بہت برسوں سے آ رہا ہوں۔ شاید ہی کوئی بیہو ایسا ہو، جب میرا اس وقت آسام کا دورہ نہ ہوا ہو۔ لیکن آج میں نے اتنی بڑی تعداد میں ایک ساتھ ماؤں بہنوں کو بیہو میں جھومتے ہوئے دیکھا۔ میں اس پیار کے لئے ، اس آشیرواد کے لئے خصوصی طور پر آسام کی ماؤں اور بہنوں کو پرنام کرتا ہوں۔ ان کا دل سے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔
ساتھیو،
ایک بار پھر جناب رتن ٹاٹا جی خود یہاں پہنچے۔ ان کا ناطہ چائے سے شروع ہوا اور چاہت تک پھیل گیا اور آج آپ کی اچھی صحت کے لیے بھی وہ ہمارے ساتھ شریک ہوئے ہیں۔ میں ان کا بھی استقبال کرتے ہوئے ایک بار پھر آپ سبھی کو ان سہولیات کے لیے بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ۔
میرے ساتھ پوری طاقت سے بولئے-
بھارت ماتا کی جے!
بھارت ماتا کی جے!
بھارت ماتا کی جے!
بہت بہت شکریہ!