وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج نئی دہلی کے وگیان بھون میں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کی مشترکہ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں شرکت کی۔ اس موقع پر انہوں نے اجتماع سے خطاب بھی کیا۔ بھارت کے چیف جسٹس این وی رمنا، سپریم کورٹ کے جسٹس یو یو للت، مرکزی وزراء جناب کرن رجیجو اور پروفیسر ایس پی سنگھ بگھیل، سپریم کورٹ کے جج، ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز، ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے وزرائے اعلیٰ اور لیفٹیننٹ گورنرز دیگر سرکردہ شخصیات کے ساتھ اس موقع پر موجود تھے۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا ’’ ہمارے ملک میں جہاں عدلیہ کا کردار آئین کے محافظ کا ہے وہیں مقننہ شہریوں کی امنگوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آئین کی ان دو شاخوں کا یہ سنگم اور توازن ملک میں ایک موثر اور وقت کا پابند عدالتی نظام کے لیے روڈ میپ تیار کرے گا۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ آزادی کے 75 برسوں نے عدلیہ اور عاملہ دونوں کے کردار اور ذمہ داریوں کو مسلسل واضح کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں بھی ضرورت پڑی، اس تعلق نے ملک کی رہنمائی کے لیے مسلسل ارتقائی مراحل طے کیے ہیں ۔ کانفرنس کو آئین کی خوبصورتی کا ایک شاندار مظہر قرار دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ وہ بہت عرصے سے کانفرنس میں آرہے ہیں، پہلے وزیراعلیٰ اور اب وزیراعظم کی حیثیت سے۔ انھوں نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا، ’’ایک طرح سے میں اس کانفرنس کے لحاظ سے کافی سینئر ہوں۔‘‘
کانفرنس کا لہجہ طے کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا ،’’ 2047 میں جب ملک اپنی آزادی کے 100 سال مکمل کر لے گا تو پھر ہم ملک میں کیسا عدالتی نظام دیکھنا چاہیں گے؟ ہم اپنے عدالتی نظام کو اس قابل کیسے بنا سکتے ہیں کہ وہ 2047 کے بھارت کی امنگوں کو پورا کر سکے، یہ سوالات آج ہماری ترجیح ہونے چاہئیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’ امرت کال میں ہمارا ویژن ایک ایسے عدالتی نظام کا ہونا چاہیے جس میں انصاف ملنا آسان ہو، تیزی سے انصاف ملے اور سب کے لیے انصاف ہو‘‘۔
وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت انصاف کی فراہمی میں تاخیر کو کم کرنے کے لیے سخت محنت کر رہی ہے اور عدالتی عملہ میں اضافے اور عدالتی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیس مینجمنٹ کے لیے آئی سی ٹی کو تعینات کیا گیا ہے اور عدلیہ کی مختلف سطحوں پر اسامیوں کو پر کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
وزیراعظم نے عدالتی کام کے تناظر میں گورننس میں ٹکنالوجی کے استعمال کے اپنے ویژن کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت عدالتی نظام میں ٹکنالوجی کے امکانات کو ڈیجیٹل انڈیا مشن کا ایک لازمی حصہ تصورکرتی ہے۔ انہوں نے وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز سے اس کو آگے بڑھانے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ ای کورٹس پروجیکٹ کو آج مشن موڈ میں نافذ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے ڈیجیٹل لین دین کی کامیابی کی مثال دی کیونکہ یہ چھوٹے شہروں اور یہاں تک کہ گاؤوں میں عام ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے بتایا کہ پچھلے سال دنیا میں جتنے بھی ڈیجیٹل لین دین ہوئے ان میں سے 40 فیصد ڈیجیٹل لین دین بھارت میں ہوئے۔ ٹکنالوجی کے استعمال کے موضوع پرمزیدبات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آج کل کئی ممالک کی لاء یونیورسٹیوں میں بلاک چینز، الیکٹرانک دریافت، سائبر سکیورٹی، روبوٹکس، مصنوعی ذہانت اور بائیو ایتھکس جیسے مضامین پڑھائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہمارے ملک میں بھی قانونی تعلیم ان بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہو۔‘‘
وزیر اعظم نے کہا کہ عدالتوں میں مقامی زبانوں کو فروغ دینا ضروری ہے تاکہ ملک کے لوگ عدالتی عمل سےتعلق کو محسوس کریں اور اس پر ان کا اعتماد بڑھے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے عدالتی عمل میں لوگوں کے حقوق کو مضبوطی ملے گی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تکنیکی تعلیم میں بھی مقامی زبانوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم نے قوانین میں پیچیدگیوں اور فرسودگی کے بارے میں بھی بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ 2015 میں حکومت نے 1800 ایسے قوانین کی نشاندہی کی جو غیر اہم ہو چکے تھے اور 1450 قوانین کو پہلے ہی منسوخ کیا جا چکا ہے۔ یہ واضح کرتے ہوئے کہ ریاستوں کے ذریعہ صرف 75 ایسے قوانین کو ہٹایا گیا ہے، وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ’’ میں تمام وزرائے اعلیٰ سے گزارش کروں گا کہ ان کی ریاست کے شہریوں کے حقوق اور ان کی زندگی میں آسانی پیداکرنے کے لیے، اس سمت میں یقینی طور پر اقدامات کیے جائیں۔‘‘
وزیراعظم نے اصرار کیا کہ عدالتی اصلاحات محض پالیسی کا معاملہ نہیں ہے۔ انسانی حساسیت اس میں شامل ہے اور اسے تمام غور و فکر کے مرکز میں رکھنا چاہیے۔ آج ملک میں تقریباً 3.5 لاکھ ایسے قیدی ہیں جو زیر سماعت ہیں اور جیلوں میں ہیں۔ انہوں نے واضح کیاکہ ، ان میں سے زیادہ تر لوگ غریب یا عام خاندانوں سے ہیں ۔ ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ جج کی سربراہی میں ایک کمیٹی ہوتی ہے، تاکہ ان مقدمات کا جائزہ لیا جا سکے۔
جہاں تک ممکن ہو، ایسے قیدیوں کو ضمانت پر رہا کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ میں تمام وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز سے اپیل کروں گا کہ وہ انسانی ہمدردی اور قانون کی بنیاد پر ان معاملات کو ترجیح دیں۔‘‘
وزیر اعظم نے کہا کہ ثالثی بھی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات بالخصوص مقامی سطح پر نمٹانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں ثالثی کے ذریعے تنازعات کے حل کی ہزاروں سال پرانی روایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ باہمی رضامندی اور باہمی شرکت، اپنے طریقے سے، انصاف کا ایک الگ انسانی تصور ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اس سوچ کے ساتھ، حکومت نے پارلیمنٹ میں ثالثی بل کو ایک امبریلا قانون سازی کے طور پر پیش کیا ہے۔ انہوں نے کہا۔ ’’ اپنی متمول قانونی مہارت کے ساتھ، ہم ثالثی کے ذریعے حل کے میدان میں عالمی لیڈر بن سکتے ہیں۔ ہم پوری دنیا کے سامنے ایک ماڈل پیش کر سکتے ہیں۔”