Urdu News

سپریم کورٹ نے بغاوت کے نئے مقدمات کے اندراج پر فی الحال لگائی روک

سپریم کورٹ نے بغاوت کے نئے مقدمات کے اندراج پر فی الحال لگائی روک

سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو قانون پر نظرثانی کی اجازت دی

مقدمہ درج ہونے پر نچلی عدالت سے راحت طلب کرنے کی ہدایات

نئی دہلی، 11 مئی (انڈیا نیرٹیو)

سپریم کورٹ نے مرکز کو بغاوت کے قانون پر نظرثانی کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ چیف جسٹس این وی رمنا کی سربراہی والی بنچ نے بغاوت کے تحت نئے مقدمات کے اندراج پر فی الحال روک لگا دی ہے۔ عدالت جولائی کے تیسرے ہفتے میں سماعت کرے گی۔ عدالت نے کہا کہ اگر کسی کے خلاف مقدمہ درج ہے تو نچلی عدالت سے راحت طلب کریں۔ عدالت نے زیر التوا مقدمات کی کارروائی روکنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے کہا ہے کہ جیل میں بند لوگ نچلی عدالت میں ضمانت کی درخواست دائر کریں۔

مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے کی دوبارہ جانچ اور اس پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ بغاوت کے معاملے میں لاگو ہوتی ہے۔ مرکزی حکومت نے ایک حلف نامے کے ذریعے کہا تھا کہ مختلف وکلا، ماہرین تعلیم، دانشوروں اور عام شہریوں کی جانب سے عام طور پر اس شق کے بارے میں مختلف خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ وہ وزیر اعظم کے اس یقین کے مطابق ہے کہ ہمارے ملک کو آزاد ہوئے 75 سال ہوچکے ہیں، وہ اپنے نوآبادیاتی تصور کو دور کرنے کی سمت کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس جذبے میں مرکزی حکومت نے 2014-15 میں 1500 سے زیادہ پرانے قوانین کو ختم کر دیا ہے۔ مرکزی حکومت نے 25,000 سے زیادہ تعمیل کو بھی ختم کر دیا ہے، جو ہمارے ملک کے لوگوں کے لیے غیر ضروری رکاوٹیں پیدا کر رہے تھے۔ مختلف قسم کے جرائم جو بغیر سوچے سمجھے لوگوں کی راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے کو جرم کے زمرے سے نکال دیا گیا ہے۔

عدالت نے 5 مئی کو کہا تھا کہ وہ پہلے اس بات پر غور کرے گی کہ اس معاملے کو آئینی بنچ کو بھیجنا ہے یا نہیں۔ 15 جولائی 2021 کو سماعت کے دوران چیف جسٹس این وی رمنا نے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ کیا آزادی کے 75 سال بعد بھی غداری جیسے قانون کی ضرورت ہے؟ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ایک بار برطانوی طاقت نے اس قانون کا استعمال مہاتما گاندھی، تلک جیسے آزادی پسندوں کی آواز کو دبانے کے لیے کیا تھا۔ کیا آزادی کے 75 سال بعد بھی غداری کے قانون کی ضرورت ہے؟

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا تھا کہ بغاوت کے مرتکب ہونے والوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن اگر پولیس یا حکومت چاہے تو اس کے ذریعے کسی کو بھی پھنسا سکتی ہے۔ ان سب پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ عرضی فوج کے ریٹائرڈ میجر جنرل ایس جی بمبٹکرے نے دائر کی ہے۔ سماعت کے دوران مرکزی حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے کہا تھا کہ بغاوت کے قانون کو واپس نہیں لیا جانا چاہیے۔ بلکہ اگر عدالت چاہے تو نئی سخت ہدایات جاری کر سکتی ہے تاکہ اس قانون کو صرف قومی مفاد میں استعمال کیا جا سکے۔

اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال اور سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے 12 جولائی 2021 کو منی پور کے صحافی کشور چندر وانگکھیمچا اور چھتیس گڑھ کے صحافی کنہیا لال شکلا کی طرف سے غداری قانون کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران اپنے جواب داخل کرنے کے لیے وقت مانگا تھا۔ درخواست گزار کی طرف سے پیش ہونے والی وکیل تنیما کشور نے کہا ہے کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ یہ دفعہ تمام شہریوں کے اظہار رائے کی آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ 1962 میں کیدارناتھ سنگھ بمقابلہ ریاست بہار کے معاملے میں سپریم کورٹ نے بھلے ہی اس قانون کی درستگی کو برقرار رکھا ہو لیکن اب ساٹھ سال گزرنے کے بعد بھی یہ قانون آئینی طور پر فٹ نہیں ہو پا رہا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ بھارت خود کو پوری دنیا میں بڑی جمہوریت کہتا ہے۔ برطانیہ، آئرلینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا، گھانا، نائجیریا اور یوگنڈا نے بغاوت کو غیر جمہوری قرار دیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار دونوں فلاحی کارکن اور ذمہ دار صحافی ہیں۔ وہ متعلقہ ریاستی حکومتوں اور مرکزی حکومت پر سوال اٹھاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کارٹون شیئر کرنے پر ان دونوں کے خلاف سیکشن 124Aکے تحت بغاوت کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

Recommended