اسلام آباد،22؍مئی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہفتہ کو پاکستان تحریک انصاف کی رہنما اور پاکستان کی سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے حکومت کو حکم دیا کہ وہ اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کرے۔ آپ کو بتادیں کہ سابق وزیر کو پاکستان کے ڈیرہ غازی (ڈی جی) خان میں درج جائیداد کے مقدمہ کے تحت ہفتہ کو ان کے گھر کے باہر سے گرفتار کیا گیا تھا۔
اے آر وائی نیوز کی خبر کے مطابق،اسلام آباد ہائی کورٹکے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی جہاں انہوں نے حکام کو پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما کو فوری طور پر رہا کرنے کی ہدایت کی اور حکومت کو مزاری کی متنازعہ حراست کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا بھی حکم دیا۔ عدالت نے مزاری کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے حکومت کو عدالتی کمیشن کے لیے ٹرمز آف ریفرنس کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا۔
سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی)کو شیریں مزاری کو ان کی رہائش گاہ پر پہنچانے کا حکم دیا اور پولیس چیف کو ان کے لیے حفاظتی انتظامات کرنے کا بھی کہا۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق، عدالت نے حکام کو موبائل فون اور دیگر قیمتی سامان مزاری کو واپس کرنے کی بھی ہدایت کی۔ عدالت نے یہ احکامات سیکرٹری داخلہ کو 'غیر قانونی اغوا' کیس میں پی ٹی آئی رہنما کو ساڑھے 11 بجے پیش کرنے کی ہدایت کے چند گھنٹے بعد جاری کیے۔
پولیس حکام نے پی ٹی آئی کے سیاستدان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں صحافیوں سے بات کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔ تاہم مزاری وہاں موجود صحافیوں کے گروپ سے بات چیت کرنے میں کامیاب ہوئیں اور دعویٰ کیا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے مزید دعویٰ کیا کہ ان کا موبائل فون ٹریک کیا جا رہا تھا اور چار خواتین پولیس اہلکاروں نے ان پر ' حملہ' کیا۔ ' اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے افسر عمار نے ان پر تشدد کیا اور انہیں سفید رنگ کی گاڑی میں لاہور لے جایا گیا۔' سابق وزیر نے کہا کہ یہ جبری گمشدگی کا معاملہ ہے۔