Urdu News

امیرخسرو کی تخلیقات میں ہندوستانی مشترکہ تہذیب کی بھرپور بازگشت: پروفیسر مظہر آصف

اسکول آف لینگویج، لٹریچر اینڈ کلچر اسٹڈیز کے ڈین پروفیسر مظہر آصف

 امیرخسرو کی تخلیقات میں ہندوستانی مشترکہ تہذیب کی بھرپور بازگشت: پروفیسر مظہر آصف 

سینٹر فار پرشین اینڈ ایشین اسٹڈیز، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی اور خسرو فاؤنڈیشن، نئی دہلی کی طرف سے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں بعنوان ”امیر خسرو اور ہماری مشترکہ تہذیب“ پر ایک سمپو زیم کا اہتمام کیا گیا۔ واضح ہو کہ یہ سپوزیم 27مئی 2022کو اسکول آف لنگویج، کمیٹی روم 212، جے این یو میں منعقد ہوا۔ سینٹر فار پرشین اینڈ ایشین اسٹڈیز اور خسرو فاؤنڈیشن کی مشترکہ کوششوں سے ایک کا میاب سمپو زیم ہوا جس میں ہندوستان کی مشترکہ تہذیب میں امیر خسرو کے کردار پر علماو دانشواران نے اظہار خیال کیا۔ اسکول آف لنگویج کے ڈین پروفیسر مظہر آصف نے اپنے استقبالیہ کلمات میں تمام مہمانان ذی وقار اور مقررین کا خیر مقدم کرتے ہوئے امیر خسرو کے کلام میں ہندوستانیت پر اظہار خیال کیا۔واضح رہے کہ پروفیسر مظہر آصف نہ صرف فارسی زبان و ادب کے عالمی شہرت یافتہ اسکالر ہیں بلکہ وہ بھوجپوری، ہندی، انگریزی کے ساتھ ساتھ آسامی زبان پر بھی دسترس رکھتے ہیں۔ پروفیسر مظہر آصف نے زبان، تہذیب اور ثقافت کے حوالے سے تاریخی پس منظر میں اپنی باتوں کو دلائل کے ساتھ پیش کیا۔ 
 پروفیسر اخلاق احمد آہن نے اپنے کلیدی خطاب میں برصغیر اور مشرق وسطیٰ کے جغرافیائی حدود پر مدلل بات کرتے ہوئے کہا کہ امیر خسرو کے شعری کائنات میں ہر طرف مشترکہ تہذیب کی جھلک موجود ہے۔ آہنگ صاحب نے تفصیلی بات کرتے ہوئے کہا کہ امیر خسرو کی شاعری میں نہ صرف تصوف بلکہ دیگر مذاہب کی چھاپ بہت واضح دیکھائی دیتی ہے۔ پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین، سابق ڈائرکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی (حکومتِ ہند)نے اپنے خطاب میں ہندوستانی تہذیب و اقدار کے استحکام میں صوفیا کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امیر خسرو کے کلام میں خالص ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا عکس ہے۔  ہندوستان میں امن کا راستہ صوفیوں کی تعلیمات میں مضمر ہے۔ بقائے باہمی پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے کہا کہ امیر خسرو اور صوفیوں کی تعلیمات میں ہی امن پوشیدہ ہے۔ آج کی نئی نسل پر ذمہ داری ہے اس تعلیمات کو عام کریں تاکہ ہندوستان میں امن و امان کی رویات یوں برقرار رہے۔ 
ڈائریکٹر مرکز تحقیقات، ایران کلچر ہاؤس ڈاکٹر شکراللہی نے اپنے خطاب میں امیر خسرو کے فارسی کلام میں وطن کے لیے جو درس پنہاں ہے و ہ قابل تعریف ہے۔ امیر خسرو کی شاعری یقینا ً فارسی ادب میں بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ پروفیسر اوم پرکاش سنگھ، چیئرپرسن، ہندوستان زبانوں کا مرکز، جے این یو نے اپنے خطاب میں امیرخسرو کے دوہے، گیت اور صوفیانہ کلام پر بات کرتے ہوئے کہا کہ امیرخسرو کی شاعری میں انسانیت کا درس روپوش ہے۔ امیر خسرو کو ہمیں انسانیت کے نقط ئ نظر سے دیکھنا چاہیے تاکہ ان کی شاعری کے پس منظر میں ہندوستانیت عام ہوسکے۔ پروفیسر انور خیری نے اپنے خطاب میں امیرخسرو کی فارسی شاعری برصغیر سمیت مشرق و سطیٰ میں ہمہ گیر اثرات کے حامل ہیں۔ ان کی ہمہ گیر اثرات ہمیں انسانیت اور محبت کا درس دیتا ہے۔ پروفیسر گریما سری واستوا نے اپنے خطاب میں کہا کہ امیر خسرو سات درباروں سے وابستہ رہے، انہوں نے اپنے شرط پر کام کیا اور اپنی تخلیقات کے ذریعے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو مضبوط کیا۔ اس لیے ان کی تعلیمات آج کے دور میں عام کرنے کی ضرورت ہے۔ خسرو فاؤنڈیشن کے چیرمین پروفیسر اختر الواسع نے اپنی صدارتی تقریر میں تمام خطابات پر اظہار خیال کیا اور خسرو فاؤنڈیشن کے قیام کا پس منظر بیان کرتے ہوئے اس کے اغراض و مقاصد پر بھر پور روشنی ڈالی۔ اخیر میں خسرو فاؤنڈیشن کے بانی ڈائریکٹر جناب رنجن مکھرجی نے تمام مہمانان اور دانشوران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ آج کی نئی نسل ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور بقائے باہمی کے فروغ کے لیے مل جل کر کام کریں تاکہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی جڑیں مزید مضبوط ہوسکیں۔ 
شعبہ فارسی کے استاد ڈاکٹر علاؤالدین شاہ پروگرام  کے نقیب تھے جبکہ اس اہم سمپوزیم کے کوارڈینیٹر ڈاکٹر شہباز عامل تھے۔جے این یو کے ریسرچ اسکالرز اور بڑی تعداد میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے اس سمپوزیم میں شرکت کی۔ 
اسکول آف لینگویج، لٹریچر اینڈ کلچر اسٹڈیز کے ڈین پروفیسر مظہر آصف 
مظہر آصف، اختر الواسع، خواجہ اکرام، رنجن مکھرجی، اوم پرکاش سنگھ، اخلاق آہن، امیر خسرو، مشترکہ تہذیب 

Recommended