مولاناشبلی نعمانی صاحب: حیات وخدمات
مولانا شبلی نعمانی صاحب4جون1857ء میں موضع بندول ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد شیخ حبیب اللہ وکیل تھے۔ ابتدائی تعلیم شکراللہ نامی ایک شخص سے حاصل کی18 سال کی عمر میں عربی فارسی کی تعلیم حاصل کر لی اور انیس سال کی عمر میں حج کی سعادت حاصل ہوئی۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد گھر والوں کے اصرار سے وکالت کا پیشہ اختیار کیا، مگر یہ پیشہ آپ کو پسند نہ آیا۔ اس کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کی۔1882ء میں سر سید کی وسیلہ سے علی گڑھ کالج میں فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے، لیکن جب سرسید انتقال کر گئے تو نوکری چھوڑ کر حیدر آباد چلے گئے۔ وہاں ناظم تعلیمات مقرر ہوئے۔اسکے بعد آپ نے سرسید کی دینی اور سیاسی پالیسی کی مخالفت میں ندوۃ العلماء کی بنیاد ڈالی۔1912ء میں دار المصنفین قائم کیا۔ آخر میں سیرت نبویؐ کی تصنیف میں مصروف رہے۔ 18نومبر1931ء میں آپ انتقال کر گئے۔
بحیثیت ادیب شبلیؔ کی مختلف خدمات ہیں۔ وہ بیک وقت مورخ بھی تھے سوانح نگار بھی مصنف بھی، شاعر اور نقادبھی۔ شاعری میں فارسی اور اُردو میں ان کا کلام ملتا ہے۔ انہوں نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ”صبح امید“ان کی مشہور مثنوی ہیں۔ جس میں انہوں نے سرسید کی سوانح اور ان کے خدمات کا اعتراف کیا ہے۔ مورخ کی حیثیت سے ان کے مضامین اور رسالے مسلمانوں کی گز شتہ تعلیم، کتب خانہ اسکندریہ اور الجزیہ مشہور ہیں۔ سوانح نگاری میں، المامون، سیرت النعمان، الغزالی، سوانح مولانا روم، سیرالنبیؐ جیسی سیرتیں لکھ کر نام کمایا۔ ادیب اور نقاد کی حیثیت سے انہوں نے”شعراالعجم“ جیسی معرکتہ الآرا(اہم بحث ومباحثہ) تصنیف لکھ کر نام کمایا اور اُردو تنقید کے بانیان میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ”موازندانیس و د بیر اور مضامین شبلی“ کے عنوان سے بھی ان کی کتابیں ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ شبلی کے خطبات سفرنامے اور خطوط بھی دستیاب ہیں۔
مولانا شبلی نعمانی اُردو ادب کے مایہ ناز مصنف ہیں آپ کے تحریر عموماً صفائی اور سادگی ہے۔ مضمون کی خشکی ختم کرنے کیلئے دلچسپ تشبیہ اور استعاروں سے بھی جابجا کام لے لیتے تھے۔ آپ کی زبان مستند مانی جاتی ہے مشکل سے مشکل مضامین کو سیدھی سادی عبارت میں نہایت سلجھا کر لکھتے تھے۔ مولانا کی عبارت میں ایک خاص وصف ہے کہ جو مزہ تقریر سے حاصل ہوسکتا ہے وہ آ پکی تحریر میں بھی قائم رہتاتھا۔
شبلی کے شاعری سے متعلق یہ بنیادی خیالات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان متاثر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مختلف واقعات اس پر اثر کرتے ہیں اور اس طرح اس پر مختلف کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ ان کے نزدیک یہ کم و بیش ایک ایسی کیفیت ہے جو شیر کو گرجنے، مور کو چنگھاڑنے، کوئل کو کوکنے، مور کو ناچنے اور سانپ کو لہرانے پر مجبور کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاعری میں جذبات کی اہمیت کے قائل ہیں۔ جذبات کے بغیر شاعری کا وجود نہیں ہوتا اور وہ جذبات سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہیجان(اُبال) اور ہنگامہ برپا کرنا نہیں بلکہ جذبات میں زندگی اور جولانی پیدا کرنا ہے۔ شبلی کے نزدیک شاعری کے لیے جذبات ضروری ہیں۔
شبلی نے اُردو کی تمام کلاسیکی اصناف کا جائزہ لیا ہے اور اس پر اپنی رائے قائم کی ہے۔ ان کا نقطہ نظر تاثراتی اور جمالیاتی نظر آتا ہے لیکن شاعری کی دوسری خوبیوں پر بھی ان کی نگاہ رہتی ہے۔ ”موازنہ انیس و دبیر“ میں انہوں نے شاعری کی صنعتوں کی جس طرح تشریح پیش کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس لیے جس صنعت کے ضمن میں انہوں نے جو شعر نقل کیے ہیں۔ ہم آج بھی اس کے حصار سے کلی طور سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔
شبلی نعمانی صاحب،جو کسی قسم کے تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ 4جون کو ان کی یوم پیدائش ہے، اس موقع پر انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے تقاریب کا انعقاد کیا جانا چاہئے۔ جس سے آنے والی نسل ان کے خدمات سے متاثر ہوکر اپنی زندگی میں ان کے نظریات کو اپنائیں۔اُردو کے لیے نعمانی صاحب کی مشن کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے۔ہم شبلی نعمانی صاحب کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
بے۔نظیر انصار ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفیئر سوسائٹی
اُسیا رسورٹ(کوینس ہوم) کوہِ فضا،احمدآباد پیلس روڈ،بھوپال۔۱۰۰۲۶۴(ایم۔پی)
ای۔میل: taha2357ind@gmail.com