ڈاکٹر صالحہ صدیقی (الہٰ آباد)
’’فکشن، تنقید،تکنیک،تفہیم(مشرف عالم ذوقی کی تحریروں کے تناظر میں)اس کتاب کو ڈاکٹرمنورحسن کمال نے مرتب کیا ہے۔اس کی اشاعت2020ء میں ہوئی۔یہ کتاب 464صفحات پر مشتمل ہے۔یہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کے مالی تعاون سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع کی گئی ہے۔دیکھا جائے تو اس کے کئی حصے ہیں مثلا پہلے حصے میں مختلف اہل قلم کے نظریات شامل ہیں اس متعلق مندرجہ ذیل مضامین شامل ہیں:
اس کتاب کے دوسرے حصے میں مشرف عالم ذوقی کے مقبول و معروف ناول”نیلام گھر“ پر لکھے گئے مشاہیر ادب کے مضامین شامل ہیں مثلا ایک اصلاحی ناول(پروفیسر حفیظ بنارسی)عصری ماحول کاتنقیدی محاسبہ (پروفیسرعلیم اللہ حالی)ذوقی کافن اور’نیلام گھر‘(نعمان شوق)اسی طرح تیسرے حصے میں مشرف عالم ذوقی کے ناول ”بیان“ پر مبنی مضامین کو شامل کئے گئے ہیں مثلا ایک خط ذوقی کے نام(پروفیسرمحمدحسن)اقدار کاایک آئینہ(محبوب الرحمن فاروقی)
اسی طرح چوتھے حصے میں ناول ”پوکے مان کی دنیا“ سے متعلق مضامین کو شامل کئے گئے ہیں جن میں تہذیب کاایک نوحہ(پروفیسر سیدمحمدعقیل)،ایک سلگتا ہواموضوع(سلام بن رزاق)،تیسری آنکھ کھلی رکھیں (شفیع جاوید)بچوں کی نفسیات کو سمجھناضروری(بسمل عارفی)،فطری ضرورتوں سے مکالمہ(محمداکرم خان)
اسی طرح کتاب کے پانچویں حصے میں مشرف عالم ذوقی کے عالمی شہرت یافتہ ناول ”لے سانس بھی آہستہ“ پر مبنی اہل علم و فن کے مضامین شامل ہیں جن میں زمین کاجذام(محمدحامد سراج)،تکنیکی جائزہ(پروفیسر علی احمدفاطمی)،اخلاقیات اور پس اخلاقیات(پروفیسرالطاف احمداعظمی)ذوقی کا منفرداسلوب(نورالحسنین)اردوفکشن کا جن(نندکشوروکرم)مختصرمختصرایک نظر(سلام بن رزاق)،ایک تجزیاتی مطالعہ(احمدصغیر)،تہذیبی جائزہ(ایم مبین)،موجودہ عہد کی ایک پھانس(شائستہ فاخری)،سانسوں کے زیروبم کافنی اظہار(ڈاکٹرمنظراعجاز)،منفرد اسلوب کاناول(رخشندہ روحی)۔اسی طرح ذوقی صاحب کے ناول ”آتش رفتہ کا سراغ“ میں کل چھ مضامین شامل ہیں،جب کہ ناول ”نالہئ شب گیر“ پر لکھے گئے اہل قلم کے آٹھ مضامین شامل ہیں،اسی طرح ناول ”مرگ انبوہ“ پر کل گیارہ مضامین شامل ہیں جن میں ایک مضمون مشرف عالم ذوقی کا بھی ہے۔یہ تمام مضامین ذوقی صاحب کے ناول کی پرتوں کو کھول کر فکر فن کی روشنی میں لکھے گئے ہیں۔جس سے قاری کے سامنے نت نئے گوشے سامنے آتے ہیں۔منور حسن کمال اس کتاب کے سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”فکشن تنقید، تکنیک، تفہیم‘ دور حاضر کے معتبر ادیب و صحافی اور ناقد و ناول نگار مشرف عالم ذوقی کے سات ناولوں پر ملک اور بیرون ملک کے ان قلم کاروں کی تحریروں پر مبنی ہے، جو اپنے اپنے دور کے اہم قلم کارہیں،اپنی اپنی جگہ الگ انفراد رکھتے ہیں اور ان کی تحریروں پر بحث و تمحیص کی گنجائش موجود ہے۔ ہر قلم کار نے جس ناول کا بھی تجزیہ کیا ہے، اس نے یہ بات یقینی طور پر کہی ہے کہ مشرف عالم ذوقی بہت آگے کی سوچ رکھتے ہیں اور ان کا فکر و فن ہر ناول کے بعد نقطہ اتصال سے آگے ہی آگے نظر آتا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ ذوقی کا دلچسپ انداز بیاں سحرانگیز بھی ہے اور سحرخیز بھی۔ وہ آنے والے دور کی ہر سچائی کو ایک نئے زاویہئ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اپنے ناولوں میں ایسا ماحول قائم کرتے ہیں کہ قاری یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا واقعی ایسا بھی ہمارے سماج میں ہوسکتا ہے؟“
مختصر یہ کہ یہ کتاب ”تفہیم مشرف عالم ذوقی“کے لیے انتہائی اہم ہے خصوصا ان کے ناولوں کی دنیا کا بہترین تجزیہ ان مضامین میں شامل ہیں جو مختلف جہات سے ان ناولوں میں پوشیدہ گتھیوں کو سلجھاتا ہوا نظر آتا ہے۔مشرف عالم ذوقی کے ناولوں کے فکری و فنی پہلو پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے منور حسن کمال لکھتے ہیں:
”بعض ناولوں کے واقعات اور کردار پہلی نظر میں فرضی معلوم ہوتے ہیں لیکن جیسے جیسے آپ اس کردار کی گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ واضح ہوتا چلا جاتا ہے کہ ایسا ممکن ہے چاہے ایک لاکھ میں کوئی ایسا واقعہ اکیلا ہی کیوں نہ ہو۔ میں نے ذاتی طور پران کے ناولوں کا مطالعہ بھی کیا ہے اور مشاہدہ بھی۔ہر ناول میں وہ کوئی نہ کوئی نئی تکنیک پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ ان پر یہ بھی الزام لگتا رہا ہے کہ انھوں نے ناول نگاری کے مروجہ فریم ورک سے گریز کیا ہے اور اس کو نئے اسالیب بلکہ ایسے اسالیب میں پیش کرنے کی جسارت کی ہے، جس کو کوئی دوسرا ناول نگار سوچ بھی نہیں سکتا۔ اب ایسا کہہ کروہ افراد ذوقی کی تعریف و توصیف کررہے ہیں یا تنقید و تنقیص یہ تو وہی جانیں لیکن ان کی بات بڑی حد تک درست بھی ہے، جیسا کہ میں نے سطور بالا میں لکھا اور کتاب میں شامل طویل مقدمہ ’اردو ناول کی شعریات‘ میں اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ کیا واقعی ان کے یہاں یہ فن پایا جاتا ہے جس کو بعض افراد نقد سے تعبیر کرتے ہیں اور بعض افراد نقص سے……….. میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان کے ناولوں کے کرداروں کا بیانیہ ایک ایسا زبردست احتجاج ہے، جو ذوقی کے اندرون میں ہمیشہ متلاطم رہتا ہے اور اس کے مد و جزر ذوقی کو کچھ نیا لکھنے پر اکساتے رہتے ہیں۔“
جہاں تک بات دوسری کتاب ”اردو صحافت کا مزاج“ کی ہے تو یہ کتاب ان مضامین کا مجموعہ ہے جسے منور حسن کمال نے لکھا ہے،اس کتاب کو ڈاکٹر سید احمد خاں نے مرتب کیا ہے۔یہ کتاب جنوری ۰۲۰۲میں اپلائڈ بکس،پٹودی ہاؤس،دریا گنج،نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے۔۸۴۲صفحات پر مشتمل اس کتاب کو چار ابواب میں منقسم کئے گئے ہیں۔منور حسن کمال نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ادب و صحافت کی خدمت کرنے میں صرف کر دی۔اس کتاب کے مطالعہ سے ان کی علمی وصحافتی خدمات کا قائل ہونا پڑتا ہے۔زبان و بیان پراور اردو قواعد پر ان کی ذبر دست گرفت ہے جس کا اندازہ ان کے مضامین کے مطالعے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔منور حسن کمال نے ہندستان کے سیاسی،سماجی،معاشی،معاشرتی،تہذیبی،مذہبی غرضیکہ زندگی سے متعلق ہر اہم موضوع کو قلمبند کیا۔وہ سماج میں ہونے والی خاموش تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اس کو کاغذ پر بکھیرتے ہے۔
منور حسن کمال نے اپنی تخلیق میں ان موضوعات کو برتا جن کا تعلق سماج کے ہر طبقے سے ہے۔انھوں نے نوکر،کرایہ دار،ادنیٰ و اعلیٰ،سماجی بھید بھاؤ، جیسے موضوعات کو اپنی تحریروں کا حصہ بنایا۔حقیقت پسندی،مکتوباتی نظام،تشبیہات و استعارات،خطابیہ انداز،فطرت سے لگاؤ،رومانی آراستگی،حسن پرستی،تخیل کی پرواز،سماج کی سچائیاں ان کی تخلیقات کے اہم وصف ہیں۔ان کی تحریروں کا مزاج ایک دوسرے سے مختلف ہے اور تنوع کی وجہ سے ہی بعض سیدھے سادے ہیں،بعض داستانو ں کے رنگ کے حامل ہیں اور بعض حیران کن حدتک ایمائی اور اشاراتی بھی۔مگر یہ تنوع ہی اِن کے مضامین کا حسن ہے۔یہ مضامین اضطراب کے ساتھ ساتھ احساس کے افسانے ہیں۔یہ مضامین قوس قزح کے ایسے دائرے ہیں جن کی کجی اور رمزیت میں ہی فنکاری پوشیدہ ہے۔ دراصل منور حسن کمال اس بات کی قائل ہیں کہ برہنہ حرف نہ گفتن کمال گویائیست۔اس لیے وہ کیا کہنا ہے سے زیادہ اس پر توجہ دیتے ہیں کہ کیا نہیں کہناہے۔اس آگہی نے ان کے مضامین کو نہ صرف حد درجہ گٹھاؤ اورcompactness عطا کیا ہے بلکہ ان کی مطالعیت یعنیReadability میں بھی اضافہ کیاہے۔منور حسن کمال کے مضامین میں مقامی کلچراور زبان وبیان پر مقامیت کی گہری چھاپ نہایت واضح ہے۔اکثر مقامات کے نام اور ان کے طرز معا شرت سے ان کے علاقے اور تہذیب کا اندازہ ہو جاتاہے۔
مختصر یہ کہ یہ کتاب اردو صحافت کی دنیا میں یقینا اہم باب ہے،صحافت سے جڑے لوگوں یا صحافت میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ کتاب انتہائی اہم ہے،جس سے نہ صرف ان کے علم و فن میں اضافہ ہو گا بلکہ صحافتی تحریریں کیسے لکھی جاتی ہیں؟ یہ بھی سیکھنے کو ملے گا۔اس مختصر مضمون میں تمام باتوں کو سمیٹنا ممکن نہیں اس لئے میری گزارش ہو گی کہ آپ خود اس کتاب کا مطالعہ کریں اور نتیجہ اخذ کریں۔۔۔۔شکریہ