فوزیہ رباب ،گوا (انڈیا)
صدی میں دو چار ہی ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی موت پر بڑے سے بڑا توصیفی بیانیہ بھی چھوٹا ہوجاتا ہے۔
گوپی چند نارنگ کی موت کو کیا کہا جائے؟
ایک عظیم الشان شخصیت کی موت؟
ایک عہد کا خاتمہ؟
ایک ادارے اور انجمن کا سقوط؟
ایک رجحان کا اختتام؟
ایک تہذیب کا انہدام؟
یقیناً گوپی چند نارنگ کے سانحئہ ارتحال پر ان میں سے ہر بیان درست ہے۔
ذرا سوچیے گزشتہ نصف صدی کی اردو تاریخ پر کوئی بامعنی نظر گوپی چند نارنگ کے بغیر ممکن ہے؟
انھوں نے اردو زبان کے ہیولے ، آواز اور خط کا گیان دھیان اپنی آتما میں سمو لیا….
امیر خسرو کو برلن سے ڈھونڈ نکالا…
مثنوی اور غزل کی ہندوستانی جڑوں تک رسائی حاصل کی…
غالب کی بودھی شونیتا سے ہمکلامی کرتے ہوئے ان کی معنی آفرینی، جدلیاتی وضع اور شعریات دریافت کی…
انیس ، فیض اور اقبال کا صوتیاتی اور علامتی نظام مرتب کیا…
پریم چند، بیدی اور قرۃ العین حیدر کے اساطیر دریافت کیے…
بالآخر ساختیات اور پس ساختیات کی ایسی شدید اور توانا بحث چھیڑی کہ اردو میں ایک نئے رجحان مابعد جدیدیت کا ڈنکا بجنے لگا۔
نارنگ کی عظمتوں کے نقوش یوں بھی ثبت کالحجر ہیں کہ ان کی خدمت میں ہندوستان کے ممتاز شہری ایوارڈ پدم وبھوشن ہی نہیں بلکہ پاکستان کے بھی اعلیٰ ترین اعزاز ستارہء امتیاز پیش کیے گیے۔
وہ پہلے اردو والے تھے جنھیں ساہتیہ اکادمی کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔
وہ قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان اور دہلی اردو اکادمی کے بھی اعلیٰ مناصب پر فائز رہے۔
اردو کا شاید ہی کوئی ادیب ہو جن کی شخصیت اور کارناموں کے حوالے سے اتنی بڑی تعداد میں کتابیں اور مؤقر رسائل کے خصوصی شمارے شائع ہوئے ہوں۔
اردو دنیا نے اس عہد میں شاید ہی نارنگ جیسا نفیس و نستعلیق خطیب دیکھا ہو۔
نارنگ صاحب نے بھرپور زندگی کی۔یہاں تک کہ سیاست سے بھی خوب شوق فرمایا۔بلکہ ایسی سیاست کہ حریف و حلیف پناہ مانگیں۔
اب رہی بات ادب اور سیاست میں اتفاق و اختلاف اور بشری خامیوں کی تو یہ قصہ پھر کبھی۔یہ تو بس ایک تعزیت ہے۔