نئی دہلی، 23/جون 2022 ۔ امور داخلہ اور امداد باہمی کے مرکزی وزیر جناب امت شاہ نے آج نئی دہلی میں امداد باہمی کی وزارت اور این اے ایف سی یو بی کے زیر اہتمام شیڈولڈ اور ملٹی اسٹیٹ اربن کوآپریٹیو بینکوں اور کریڈٹ سوسائٹیوں کے قومی کنونشن سے خطاب کیا۔ اس موقع پر امداد باہمی کے وزیر مملکت جناب بی ایل ورما، وزارت امداد باہمی کے سینئر افسران، چیئرمین، نیشنل فیڈریشن آف اربن کوآپریٹیو بینکس اینڈ کریڈٹ سوسائٹیز لمیٹڈ (این اے ایف سی یو بی)، جناب جیوتندرا مہتا اور کئی دیگر معززین موجود تھے۔
اپنے خطاب میں جناب امت شاہ نے کہا کہ ملک اس سال آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے قوم کے سامنے ایک ہدف رکھا ہے کہ جب قوم 25 سال بعد آزادی کا صد سالہ جشن منائے گی، اس وقت بھارت کو تمام شعبوں میں بہترین ہونا چاہیے۔ یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب اس عمل میں سب کی شراکت داری اور تعاون ہو اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ 25 سال میں اپنے اپنے مقاصد طے کریں اور اسے حاصل کریں۔ ہمارے سامنے سب سے بڑا ہدف ملک کی ترقی ہے، ملکی معیشت کو عالمی معیشت کی چوٹی پر لے جانا ہے اور تمام شہریوں کو مساوی حقوق کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کے قابل ہونا چاہیے۔
امداد باہمی کے مرکزی وزیر نے کہا کہ کچھ لوگ کوآپریٹیو کو مختلف نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور انہیں ازکار رفتہ، فرسودہ اور غیر موزوں سمجھتے ہیں۔ لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ امول، کربھکو، افکواور لجت پاپڑ کے ماڈلز پر ایک نظر ڈالیں۔ 195 سے زیادہ کوآپریٹیو بینکوں پر ایک نظر ڈالیں جو 100 سال سے زیادہ پرانے ہیں اور آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ آج بھی اتنے ہی موزوں ہیں۔ جناب امت شاہ نے کہا کہ 100 سال ایک بہت طویل عرصہ ہے اور ملک میں کوآپریٹیو نے اس سفر کو بڑی کامیابی کے ساتھ مکمل کیا ہے، لیکن اگلے 100 سال کا سفر ملک کی ترقی میں بڑے فخر کے ساتھ اپنا حصہ ڈال کر مکمل کرنا ہوگا۔ اگلے 100 سالوں کے لیے کوآپریٹیو کے دائرۂ کار اور قبولیت کو بڑھانا ہو گا اور ان کے عمل کی بنیاد پر کوآپریٹیو کو غیر موزوں سمجھنے والوں کو نظریہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کی کارکردگی کی بنیاد پر سمجھانا ہو گا۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ صرف اربن اسٹیٹ کوآپریٹیو بینک ہی معاشرے کے سب سے چھوٹے طبقے کو قرض دے سکتے ہیں اور اس طبقے کی ترقی اور انھیں ترقی کے عمل میں حصہ دار اور ملک کی معیشت میں حصص دار بنانے کا کام صرف کوآپریٹیو ہی کرسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آج جب عام لوگ روزمرہ کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے قرض چاہتے ہیں تو وہ کوآپریٹو بینکوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ یہ ہمہ گیر ترقی کے لیے بہت اہم ہے اور یہ سماج یعنی کوآپریٹیو اداروں اور حکومت دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان لوگوں کو بااختیار بنائیں جو مالی طور پر بااختیار نہیں ہیں۔ اَربن کوآپریٹیو بینکوں اور اربن کوآپریٹیو کریڈٹ سوسائٹیوں کے ذریعے بااختیار بنانے کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے کہا کہ 10000 شاخیں، 5 لاکھ کروڑ روپے کے ڈپازٹس، 3 لاکھ کروڑ روپے کی ایڈوانسز اچھے اعداد و شمار ہیں، لیکن بینکنگ سیکٹر میں کوآپریٹیو کی حصے داری پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بینکنگ سیکٹر میں اربن کوآپریٹو بینکوں کا صرف 3.25 فیصد ڈپازٹ اور 2.69 فیصد ایڈوانس ہے۔ ہمیں اس سے مطمئن نہیں ہونا چاہیے اور اسے بڑھانے کا عزم کرنا چاہیے۔ امداد باہمی کے مرکزی وزیر نے کہا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جناب نریندر مودی کی قیادت میں حکومت ہند آپ کے ساتھ مساوی سلوک کرے گی اور آپ کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک نہیں کیا جائے گا۔
امداد باہمی کے وزیر نے کہا کہ اگر ہم توسیع کرنا چاہتے ہیں تو ایک مدت کے بارے میں نہ سوچیں، اب ہمیں اگلے 100 سالوں کے بارے میں سوچنا ہے اور اس کے لیے ہمیں اپنے اندر کچھ ادارہ جاتی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ ہمیں نئے اور پیشہ ور لوگوں کے لیے جگہ بنانا ہے اور انھیں کوآپریٹیو سیکٹر میں لانا ہے۔ وہ کوآپریٹیو کو آگے لے جائیں گے، نئی نسل آپ کے تجربے سے سیکھے گی اور پرانی نسل نئی نسل کو سکھائے گی، یہی طریقہ ہمیں اپنانا چاہیے۔ ہمیں اپنے انسانی وسائل کا اپنے مسابقتی نجی بینکوں اور قومی بینکوں سے بھی موازنہ کرنا چاہیے۔ بھرتی کے پیشہ ورانہ عمل، اکاؤنٹنگ سسٹم کا مکمل کمپیوٹرائزیشن اور اکاؤنٹ سافٹ ویئر میں خود انتباہات (سیلف اِلرٹس) جیسی بہت سی چیزوں کا بھی خود جائزہ لینا چاہیے۔ اگر ہمیں بھی مقابلے میں برقرار رہنا ہے تو ہمیں وقت کے ساتھ خود کو بدلنا ہو گا اور اس کے مطابق جینا ہو گا۔ ہمیں خود کا جائزہ لینا ہوگا اور نئی اصلاحات کو قبول کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں 40 فیصد اربنائزیشن ہے، لیکن کوآپریٹیو کی شراکت داری محدود ہے، اگر ہم اس میں اپنا حصہ بڑھاتے ہیں تو ہمیں مسابقت کار بنے رہنے پر توجہ دینی ہوگی۔ این اے ایف سی یو بی کو کریڈٹ کوآپریٹیو سوسائٹی کے شعبے پر بھی زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔ آج کوآپریٹیو کے جذبے اور کلچر دونوں کو آگے بڑھایا جانا چاہیے۔ ملک کے غریب طبقے کی ترقی کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اس جذبے کو آگے بڑھائیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ جدید بینکاری نظام کو قبول کریں، تبھی ہم مقابلے میں رہ سکیں گے۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ ہمیں یہ عزم کرنا چاہیے کہ ہم اپنی ضرورت/ امپریٹیو بھی پیدا کریں گے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے تعاون سے مقابلہ کے دور میں اپنی مانگ کو بڑھائیں گے تاکہ کوآپریٹیو پر لوگوں کا اعتماد بڑھ سکے۔ انھوں نے کہا کہ اَربن کوآپریٹیو کریڈٹ سیکٹر کے مستقبل کے کردار پر اس سیمینار میں کئی تکنیکی سیشن ہیں۔ اس بحث میں آئیے ہم خود بھی اپنا احتساب کریں۔ امور داخلہ اور امداد باہمی کے مرکزی وزیر نے کہا کہ یہاں بہت بڑا کاروبار ہے، تقریباً 1534 اربن کوآپریٹیو بینک، 10000 سے زیادہ شاخیں، 54 شیڈول بینک، 35 ملٹی اسٹیٹ کوآپریٹیو بینک، 580 ملٹی اسٹیٹ کوآپریٹیو کریڈٹ سوسائٹیز اور 22 اسٹیٹ ایسوسی ایشنز ہیں۔ ہمارا پھیلاؤ بہت زیادہ ہے لیکن یہ غیر مساوی ہے۔ ہر شہر میں ایک اچھا اربن کوآپریٹیو بینک ہونا وقت اور ملک کی ضرورت ہے۔ این اے ایف سی یو بی کو نہ صرف کوآپریٹیو بینکوں کے مسائل کو اٹھانا چاہئے اور انھیں حل کرنا چاہئے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بہتر ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا چاہئے۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم کوآپریٹیو کی یکساں توسیع کریں، کیونکہ یہ آنے والے وقت میں ہمیں مسابقت میں برقرار رکھ سکتا ہے۔ اس کے لیے کامیاب بینکوں کو بھی آگے آنا ہوگا۔
امور داخلہ اور امداد باہمی کے مرکزی وزیر نے کہا کہ اربن کوآپریٹیو بینکوں سے متعلق بہت سے مسائل ہیں اور آپ کو ان مسائل کو حل کرنے میں امداد باہمی کی وزارت اپنی سوچ سے دو قدم آگے نظر آئے گی۔ امداد باہمی کی وزارت کے قیام کے بعد سے بہت سی تبدیلیاں ہوئیں جن میں ٹیکس اور شوگر ملوں کی اسیسمنٹ کے مسائل شامل ہیں۔ حکومت ہند پورے کوآپریٹیو سیکٹر کا ڈیٹا بینک بنا رہی ہے، جس سے ایک کوآپریٹیو یونیورسٹی کے قیام کی راہ ہموار ہو رہی ہے اور کابینہ نے بڑی کوآپریٹیو سوسائٹیوں کے ذریعے جی ای ایم کے ذریعے خریداری کو بھی منظوری دے دی ہے۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے سرکاری اداروں کے علاوہ دیگر اداروں کو بھی جی ای ایم سے خرید کرنے کی اجازت دی ہے، پھر یہ صرف کوآپریٹیو کے لیے ہے، یہ شفافیت کے لیے بہت ضروری ہے۔ بہت ساری چیزیں ہو رہی ہیں اور مستقبل میں بھی ہوں گی، لیکن میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ خود کو دیکھیں اور سوچیں کہ مسابقے میں برقرار رہنے کے لیے آپ کے اداروں میں اور کیا کرنے کی ضرورت ہے۔