Urdu News

برطانیہ میں حکومت کے خلاف بغاوت: بورس جانسن نے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا

بورس جانسن نے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا

برطانیہ میں وزیراعظم بورس جانسن حکومت کے خلاف بغاوت ہو گئی ہے۔ بورس جانسن نے 41 وزراء  اور پارلیمانی سیکرٹریوں کے استعفوں کے بعد استعفیٰ دے دیا ہے۔ حالانکہ نئے وزیراعظم کے انتخاب تک وہ عہدے پربطور قائم مقام وزیراعظم برقرار رہیں گے۔ قوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا کی سب سے بہترین نوکری چھوڑنے کا انہیں بہت افسوس ہے۔ جانسن نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ جان لیں کہ دنیا کی سب سے بہترین عہدہ چھوڑنے کا مجھے کس قدر افسوس ہے۔

گزشتہ تین دن برطانوی سیاست میں بہت ہنگامہ خیز رہے۔ منگل کو برطانیہ کے وزیر خزانہ رشی سنک اور وزیر صحت ساجد جاوید نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ ان دونوں نے وزیر اعظم بورس جانسن کی قیادت پر سوال اٹھاتے ہوئے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد سے برطانیہ میں استعفوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک 41 وزرا  اور پارلیمانی سیکرٹریوں نے بورس جانسن پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اس کے بعد سے وزیر اعظم بورس جانسن پر بھی استعفیٰ دینے کا دباؤ تھا۔

وزیر اعظم جانسن کے بحران میں اضافہ کرتے ہوئے، ان کی حکومت کے سینئر وزرابدھ کی شام وزیر اعظم کی رہائش گاہ 10، ڈاؤننگ سٹریٹ گئے اور انہیں عہدہ چھوڑنے کو کہا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ وزیر داخلہ پریتی پٹیل جو ان کی کٹر حامی سمجھی جاتی تھیں، بھی ان وزرامیں شامل تھیں۔ جانسن نے وزرا  پر دباؤ ڈالنے کے لیے انفرادی طور پر ملاقات کی۔ اس کے باوجود ڈیڑھ درجن وزرا  نے انہیں عہدہ چھوڑنے کو کہا۔ انہوں نے اگلے انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی کے امکانات کو بہتر بنانے کے لئے قیادت میں تبدیلی پر زور دیا۔ ان حالات کے بعد بورس جانسن نے وزیراعظم کا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔

برطانیہ کے وزیر اعظم کی رہائش گاہ 10، ڈاؤننگ سٹریٹ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بورس جانسن نئے رہنما کے انتخاب تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہیں گے۔ توقع ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کے نئے رہنما کے انتخاب کا عمل اکتوبر کے کنونشن میں مکمل ہو جائے گا۔

Recommended