امور داخلہ اور امداد باہمی کے مرکزی وزیر جناب امت شاہ نے آج ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے جموں و کشمیر کے سری نگر میں سوامی رامانج آچاریہ کے اسٹیچو آف پیس کی نقاب کشائی کی۔ اس موقع پر جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر جناب منوج سنہا اور شری یدوگیری یتی راج مٹھ کے شری شری یتی راج جیار سوامی سمیت کئی معززین موجود تھے۔
اپنے خطاب میں مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ آج کشمیر میں ماربل سے بنے سوامی رامانج آچاریہ کے اسٹیچو آف پیس کی نقاب کشائی کرتے ہوئے مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ کے مختلف ادوار میں، جب بھی سماج کو اصلاح کی ضرورت ہوئی، ایک عظیم شخص سچا راستہ دکھانے کے لیے آگے آیا اور رامانج آچاریہ بھی ایسے وقت میں پیدا ہوئے جب ملک کو ایک عظیم شخص کی ضرورت تھی۔ آج اس موقع پر، میں رامانج آچاریہ کی زندگی، کاموں اور شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ جب سماجی اتحاد کو توڑا جا رہا تھا، بہت سی برائیاں سماج کو متاثر کر رہی تھیں، تب رامانج آچاریہ کو بھیجا گیا اور انہوں نے ویشنو مت کو اس کے اصل سے جوڑنے کا عظیم کام کیا۔ جناب شاہ نے کہا کہ 2017 میں بھگوت رامانج آچاریہ کے 1000 ویں یوم پیدائش کی تقریبات پرم پوجیا جیار سوامی کی محنت اور بھگتی کی وجہ پورے ملک میں منائی گئیں، وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 15 اگست کو لال قلعہ کی فصیل سے ملک کو بھگوت رامانج آچاریہ کا پیغام دیا۔ اس وقت کیے گئے عزم کے مطابق حیدرآباد میں رامانج آچاریہ کی ایک بہت بڑی یادگار تعمیر کی گئی ہے جو نہ صرف ان کی زندگی کے پیغام کو مستقبل میں آگے لے جائے گی بلکہ یہ جنوبی ہندوستان میں سناتن دھرم کا ایک مقام بھی بن گیا ہے جو پورے جنوب میں پھیل چکا ہے۔ جنوبی ہندوستان میں مذہبی شعور کو تقویت بھی ملی ہے۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ آج کشمیر میں اس اسٹیچو آف پیس کا قیام پورے ملک بالخصوص جموں و کشمیر کے لیے ایک بہت ہی مبارک علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر لیفٹیننٹ گورنر جناب منوج سنہا کی قیادت میں امن اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوا ہے۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں جناب منوج سنہا نے کشمیر میں دہشت گردی پر فیصلہ کن بالادستی قائم کی ہے۔ جناب منوج سنہا نے بغیر کسی تفریق کے کشمیر کے لوگوں تک ترقی کو پہنچایا ہے۔ ایک طویل عرصے کے بعد، ملک کو توقع تھی کہ آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ہٹا دیا جائے اور کشمیر کو بھارت کے ساتھ پوری طرح مربوط کر دیا جائے گا۔ اس امید کو وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے پورا کیا اور 5 اگست 2019 سے کشمیر میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ ایسے وقت میں اس اسٹیچو آف پیس کی تنصیب سے تمام مذاہب کے کشمیریوں تک رامانج آچاریہ کا آشیرواد اور پیغام پہنچے گا اور کشمیر کو امن اور ترقی کی راہ پر مزید آگے لے جائے گا۔
جناب امت شاہ نے کہا کہ ایک طرح سے رامانج آچاریہ کی زندگی اور کام کی جگہ زیادہ تر جنوبی ہندوستان میں تھی۔ لیکن ان کی تعلیم اور محبت کا پھیلاؤ پورے ملک میں نظر آتا ہے۔ رامانج آچاریہ اور ان کے شاگرد رامانند کے اصل پیغام سے ملک بھر میں بہت سے فرقے پروان چڑھے ہیں۔ جس کے نتیجے میں آج کشمیر میں اسٹیچو آف پیس قائم ہو گیا ہے۔ یہ اسٹیچو نہ صرف کشمیر بلکہ پورے ہندوستان کو امن کا پیغام دے گا۔ اس اسٹیچو کی اونچائی چار فٹ ہے اور یہ خالص سفید مکرانہ سنگ مرمر سے بنا ہے اور اس کا وزن تقریباً 600 کلو گرام ہے۔ کرناٹک کے منڈیا ضلع میں واقع یدوگیری کا یاتھی راج مٹھ میلکوٹ کا واحد اصل مٹھ ہے جو رامانج آچاریہ کے زمانے سے موجود ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ جب گجرات میں زلزلہ آیا تو جیار سوامی ان سنتوں میں سب سے پہلے تھے جنہوں نے وہاں پہنچ کر گاؤں کو دوبارہ تعمیر کیا۔ گجرات حکومت اگلے سال وہاں رامانج آچاریہ کا ایک عظیم الشان مجسمہ بھی نصب کرنے جا رہی ہے، تاکہ کچھ کے لوگ یدوگیری مٹھ کے کام کو یاد رکھیں۔ رامانج آچاریہ نے اپنے گرو یمنا آچاریہ سے موصول ہونے والے احکامات کے ذریعے مٹھ قائم کیا۔ رامانج اچاریہ کی زندگی کے بہت سے واقعات ہمیں صدیوں تک تحریک دے سکتے ہیں۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ رامانج آچاریہ کی پیدائش تمل ناڈو میں وکرم سموت 1074 میں ہوئی تھی اور کیشوآچاریہ اور ماتا کانتی منی کے اس حیرت انگیز بچے نے نوعمری میں ہی گرنتھوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔ 23 سال کی عمر میں، گھر والے کے آشرم کو چھورکر سری رنگم کے یتی راج سنیاسیوں نے ان کو سنیاس دلایا اور پھر شری رامانج آچاریہ ایک اسکالر، ایک انقلابی اور ایک ایسے علمبردار بنے جنہوں نے اپنے وقت میں کئی سماجی تبدیلیاں کرائیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی مذہب، بھگتی اور ملک کے نام وقت کردی تھی۔ کشمیر سے ان کا گہرا تعلق تھا۔ رامانج آچاریہ نے وششٹ ادویت فرقے کے ذریعے شمولیت والے معاشرے، مذہب اور فلسفے کی تشریح نو کی۔ منسا، واچا، کرمنا کے فارمولے کو اپناتے ہوئے انہوں نے اپنی زندگی عوام کی خدمت میں لگا دی۔ ان کے پیغام سے ملک بھر میں کئی فرقے ابھرے۔ گجرات کے مشہور شاعرہ نرسی مہتا نے رامانج آچاریہ کے پیغام کے ساتھ ’ویشنو جن تو تینے کہیے جے پیر پرائی جانے رے‘تیار کیا۔ سنت کبیر نے بھی رامانج آچاریہ کی وجہ سے اپنی زندگی میں جتنا وہ کرسکتے تھے اتنا تسلیم کیا۔