تعلیم کے مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر سبھاش سرکار نے ماہرین تعلیم و اساتذہ کو خطاب کیا اور کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی کا نصب العین مجموعی تعلیم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مختلف اداروں میں جا کر انہوں نے محسوس کیا کہ مجموعی تعلیم کی جانب کام کرنے کے لئے بہت سے میکرو اور مائیکرو اقدامات کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر اظہارخیال کرتے ہوئے تعلیم کی مرکزی وزیر مملکت محترمہ انوپورنا دیوی نے کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی میں ہندوستانی زبانوں میں تعلیم پر بہت زور دیا گیا ہے، لیکن ہماری اپنی زبانوں میں تعلیم دینے کے لئے عالمی درجے کا مطالعاتی متن دستیاب نہیں ہے۔ ہم قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے مقاصد کو کسی بیرونی زبان میں حاصل نہیں کر سکتے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہندوستان کی تعلیم کو بین الاقوامی معیار پر لانے اور 21ویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ہماری یونیورسٹیوں اور وہاں کے اساتذہ کو اہم رول ادا کرنا ہے۔
اکھل بھارتیہ شکشا سماگم میں 11 اجلاس ہوئے، جن میں سے 9 موضوعاتی اجلاس تھے اور 2 خصوصی اجلاس تھے، جن میں قومی تعلیمی پالیسی 2020 پر عمل درآمد سے متعلق کامیابی کی کہانیاں اور بہترین طور طریقوں پر روشنی ڈالی گئی، جن موضوعا ت پر تبادلہ خیال کیا گیا ان میں مجموعی اور کثیر جہتی تعلیم، معیار بڑھانے، ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے تعلیم کو تمام لوگوں کی شمولیت والا بنانا، تحقیق اور اختراع کا ایکو سسٹم تیار کرنا، ہندوستانی زبانوں کے فروغ، ہندوستانی نالج سسٹم اور این ای پی پر عمل درآمد کے بہترین طور طریقوں کو شیئر کرنا جیسے موضوع شامل ہیں۔
پہلا اجلاس ملٹی ڈسپلینری ایجوکیشن اور مجموعی تعلیم کے موضوع پر تھا اور اس کی صدارت ڈاکٹر پروفیسر رما شنکر دوبے، وائس چانسلر، سنٹرل یونیورسٹی، گجرات، گاندھی نگر نے کی۔ ڈاکٹر رشی کیش ٹی کرشنن، ڈائرکٹر ، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ، بنگلورو، پروفیسر راج سنگھ، وائس چانسلر، جین یونیورسٹی، بنگلورو، پروفیسر نتن کرمالکر، سابق وائس چانسلر ساوتری بائی پھولے ، پنے یونیورسٹی، پنے اور پروفیسر ایس پی بنسل، وائس چانسلر ، سنٹرل یونیورسٹی آف ہماچل پردیش، اجلاس کے پینل میں شامل تھے۔ یہ صلاح دی گئی کہ اعلیٰ تعلیمی ادارے ملٹی ڈسپلینری بن کر مجموعی تعلیم دینے کا نظم کریں اور کثیر جہتی نصاب اور درس تیار کریں۔ جامع اور کثیر رخی تعلیم کو یقینی بنانے کے لئے ہمیں مندرجہ ذیل سہولیات فراہم کرنی ہوں گی۔
- پروگراموں میں اہلیت کے تسلسل کا ایک وسیع تر خاکہ (نیشنل ہائر ایجوکیشن کوالیفکیشن فریم ورک (این ایچ ای کیو ایف)۔
- اکیڈمک بینک آف کریڈٹس
- ملٹی ڈسپلینری ایجوکیشن میں کئی مرتبہ داخلے اور ایگزٹ کی گنجائش کے طے رہنما خطوط
- ملے جلے طریقے سے کریڈٹس حاصل کرنے کی سہولت
- ڈگری+ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا قیام، جہاں کلیدی ڈسپلن کے علاوہ طلبہ کی پسند کے کورس کی سہولت ہو۔
- صنعتوں اور تحقیق و ترقی یونٹوں کی انٹرن شپ کے ذریعے تجرباتی جانکاری کے فروغ کی سہولت
- صنعتوں سے جڑ کر کیمپس میں صنعتوں کے اشتراک سے کام
- تعلیم میں لچک دی جائے، جس میں پہلے سال کے طلبہ کو ہر چیز کی جھلک ملنی چاہئے اور اس کے بعد طلبہ اپنی پسند کی شاخ کو منتخب کر سکتے ہیں۔
- دوسرا موضوعاتی اجلاس تحقیق ، اختراع اور صنعت کاری پر تھا اور اس کی صدارت پروفیسر جی رنگا راجن نے کی، جو ڈائرکٹر آئی آئی ایس سی بنگلورو ہیں۔
- پروفیسر وی کے تیواری، ڈائرکٹر انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ( آئی آئی ٹی) کھڑگپور، پروفیسر سی متھاوز چیلون، وائس چانسلر، ایس آر ایم انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، چنئی، ڈائرکٹر سرینواس بالی، وائس چانسلر نروپا تھنگا یونیورسٹی آف میزورم، اس اجلاس کے پینل شرکاء تھے۔ اجلاس کے دوران مندرجہ ذیل نکات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
- قومی تعلیمی پالیسی کا مقصد ایک ایسا سازگار ایو سسٹم تیار کرنا ہے، جس میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تحقیق اور اختراع پر توجہ مرکوز کی جائے۔ خصوصی توجہ اس بات پر دی جا رہی ہے کہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں فنڈنگ سپورٹ، گائڈ لائن، پالیسیوں کے ذریعے اور تحقیق و اختراع کے مراکز قائم کر کے تحقیق اور اختراع کو فروغ دیا جائے۔
- تحقیق اور اختراع کے طور طریقوں کو گہرائی سے سمجھنا اور ڈگر سے ہٹ کر سوچنے اور کام کرنے کے لئے تنقیدی سوچ رکھنے کی ضرورت۔
- ریسرچ، اختراع اور صنعت کاری کو فروغ دینے کے لئے ملٹی ڈسپلینری مربوط مراکز کا قیام، جو معاشرے اور معیشت سے قریب سے جڑے ہوئے ہوں۔
- تمام فریقوں کو ریسرچ کے تمام پہلوؤں کے ساتھ مربوط کرنے کا ایکو سسٹم
- میرٹ پر مبنی مقابلہ جاتی فنڈنگ اور ممتاز تحقیقی کاموں کا اعتراف
تیسرا موضوعاتی اجلاس معیاری تعلیم کے لئے گورننس اور اساتذہ کی صلاحیت سازی کے موضوع پر تھا۔ پروفیسر ایم کے سری دھر، رکن ڈرافٹنگ کمیٹی این ای پی، نے اجلاس کی صدارت کی۔ پینل شرکاء تھے: پروفیسر اویناش سی پانڈے، ڈائرکٹر آئی یو اے سی، پروفیسر (ڈائرکٹر) وجے کمار سریواستووائس چانسلر مہا راجہ سایا جی راؤ یونیورسٹی، بروڈہ، گجرات، پروفسیر دنیش پرساد سکلانی، چیئر پرسن ، این سی ٹی ای اور پروفیسر سنجیو جین، وائس چانسلر سنٹرل یونیورسٹی آف جموں۔ اجلاس کے دوران درج ذیل موضوعات پر تبادلۂ خیال کیا گیا ۔
- این ای پی 2020میں اساتذہ کی تفویض اختیار اور صلاحیت سازی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جو معیاری، اعلیٰ تعلیم کے لئے لازمی ہے۔
- اساتذہ کی تعلیم کے پورے ڈھانچے کو یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے اسے وسیع تر اعلیٰ تعلیم کا مربوط حصہ بنایا جائے۔
- اساتذہ ہر سال نئے کورس لے کر سامنے آئیں تاکہ طلبہ کے پاس زیادہ راستے ہوں۔
چوتھا موضوعاتی سیشن معیار، درجہ بندی اور منظوری کے موضوع پر تھا۔ پینل شرکا تھے: پروفیسر جی ہیمنت کمار، وائس چانسلر، یونیورسٹی آف میسور، پروفیسر آر ایم کاتھریسن، وائس چانسلر انا ملائی یونیورسٹی، پروفیسر ڈاکٹر ایس ویدیہ سبرامنیم، وائس چانسلر، ایس اے ایس ٹی آر اے، تھنجاؤر اور پروفیسر آر پی تیواری، وائس چانسلر سنٹرل یونیورسٹی آف پنجاب۔ اجلاس کی کارروائی پروفیسر کے ایکریڈیٹیشن نئی دلی نے کی۔ درج ذیل موضوعات زیر بحث آئے۔
- عالمی درجے کی رینکنگ حاصل کرنے کی ضرورت
- مارگ درشک -مارگ درشن اقدام – اداروں میں سیکھنے والے اور سکھانے والوں کا تال میل
- کالجوں کو ایکریڈیٹیشن کے ہر مرحلے کے لئے مطلوبہ کم از کم پیمانوں کو حاصل کرنے کے لئے حوصلہ افزائی اور مدد۔
- منظوری دینے والی ایجنسیوں کے ذریعے اختیار کردہ پیمانوں پر تبادلۂ خیال
- غیر منظور شدہ اداروں کو منظور شدہ دائرے میں لانے کے طریقے تلاش کرنا
پانچواں موضوعاتی اجلاس ڈیجیٹل تفویض اختیارات اور آن لائن لرننگ پر تھا۔ پینل شرکاء تھے: پروفیسر کاما کوٹی ویزناتھن، ڈائرکٹر ، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، مدراس، پروفیسر پی وی وجے راگھون، وائس چانسلر، شری رام چندر انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، چنئی، جناب راہل کلکرنی، چیف ٹیکنالوجسٹ سمگر اینڈ کو فاؤنڈر، ڈونیو، پروفیسر ناگیشور راؤ، وائس چانسلر اگنو، اجلاس کی صدارت پروفیسر انل ڈی سہسرا بدھے، چیئرمین اے آئی سی ٹی ای نے کی۔ جن نکات پر غور کیا گیا وہ درج ذیل ہیں:
- موجودہ ڈیجیٹل پلیٹ فارموں کو بڑھانا
- ڈیجیٹل وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اسے وسیع تر بنانا اور مادی طور پر سب کے لئے لرننگ کی رسائی
- مختلف علاقوں میں صنعتوں کی مدد سے ملک گیر نگرانی مراکز
چھٹا موضوعاتی اجلاس کا موضوع تھا مساویانہ اور سب کی شمولیت والی تعلیم۔ اجلاس کی صدارت پروفیسر عین الحسن، وائس چانسلر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، حیدر آباد نے کی۔ پینل شرکاء تھے: پروفیسر ٹی وی کٹی منی، وائس چانسلر ، سنٹرل ٹرائبل یونیورسٹی، آندھرا پردیش، وجے نگرم، ڈاکٹر اجولا چکر دیو، وائس چانسلر ایس این ڈی ٹی ویمن یونیورسٹی، ممبئی، پروفیسر سانتی شری، دھولی پوڑی پنڈت، وائس چانسلر جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی اور پروفیسر سشما یادو، کمیشن ممبر یو جی سی اور سابق وائس چانسلر، بھگت پھول سنگھ مہلا وشو ودیالیہ۔ درج ذیل موضوعات پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
- تمام طلبہ کے لئے مساویانہ طور پر تعلیم تک رسائی۔ خاص طور سے سماجی و اقتصادی طور سے پسماندہ طلبہ کے لئے۔
- سماجی و اقتصادی طور سے پسماندہ طلبہ کے لئے برج کورس، کمائی کے ساتھ پڑھائی پروگرام اور آؤٹ ریج اقدمات کے ذریعے تعلیم تک مساوی رسائی کو یقینی بنانا۔
- اسکالر شپ، فیلو شپ اور ریسرچ کے مزید مواقع پیدا کرنا
ساتواں موضوعاتی اجلاس ہندوستانی زبانوں کے فروغ اور ہندوستانی علوم کے نظام کے موضوع پر ہوا ۔ جن موضوعات پر تبادلۂ خیال ہوا، وہ اس طرح ہیں:
- ہندوستان کی مالا مال ثقافت آرٹ اور زبانوں کی وراثت کو محفوظ کرنے، انہیں مستحکم کرنے اور فروغ دینے کے طریقے۔
- ہر سطح پر نصاب میں انڈین نالج سسٹم کی شمولیت
- آئی کے ایس کو نئے سرے سے متحرک کرنے کے لئےکثیر جہتی طریقہ کار
- ملک کے مختلف حصوں میں تعلیمی اداروں میں آئی کے ایس مراکز کا قیام۔
تیسرے دن اور 9ویں دن کا پہلا موضوعاتی اجلاس ہنرمندی کے فروغ اور روزگار کے مواقع پر مبنی تھا۔ اجلاس کی صدارت ڈاکٹر کے این ستیہ نرائن، ڈائرکٹر انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، تروپتی نے کی۔ جن موضوعات پر غور کیا گیا وہ ہیں:
- نصابی معاونت کے ساتھ ہنرمندی طلباء کی ملازمت کو بہتر بنانے میں ایک قابل قدر کردار ادا کرتی ہے۔
- تمام تعلیمی اداروں میں پیشہ ورانہ تعلیم کے پروگراموں کا مرحلہ وار مرکزی دھارے کی تعلیم میں انضمام۔
- ہنرمندی عمومی تعلیم کے شعبوں میںیکساں طور پر اہم ہے اور تدریس اور تحقیق دونوں کو چاہئے کہ افادیت، جدیدیت اور لچک پر توجہ دی جائے۔
- تعلیم اور صنعت کے درمیان بامعنی روابط پر زیادہ زور۔
- ملک کے لئے "موزوں بہ صنعت" ہنر مند افرادی قوت کی تخلیق۔
- صنعت کی قیادت میں مبنی بر مشق اور مبنی بر نتیجہ سیکھنے کے عمل کو اصل توجہ کا شعبہ ہونا چاہیے۔
- *انسٹی ٹیوٹ انڈسٹری کنیکٹ قائم کرنے کے طریقے اور ذرائع دریافت کریں۔
پیشہ ورانہ تعلیم کو اعلیٰ تعلیم میں ضم کرنے کے لئے مختلف ماڈلز کا سراغ لگائیں۔
- *بین اقوامی روزگار کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی خاطر طلباء کی نقل و حرکت کو فروغ دینے کے لئے قومی ہنر کی اہلیت کے فریم ورک کو آئی ایس سی او کے بین اقوامی معیاری درجہ بندی کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لئے اس کا جائزہ لیں۔
دسواں تھیمیٹک سیشن "تعلیم کی بین الاقوامی کاری" کے موضوع پر منعقد ہوا۔ پینل ڈسکشن کی صدارت پروفیسر سدھیر جین، وائس چانسلر، بی ایچیو، وارانسی نے کی۔
سیشن کے جن پینلسٹوں نے موضوع پر اظہار خیال کیا ان میں پروفیسر ودیایراوڈیکر پرو چانسلر، سمبیوسس، پُنے؛ پروفیسر آنند اگروال وائس چانسلر، چندی گڑھ یونیورسٹی، اجیت گڑھ، پنجاب؛ پروفیسر (ڈاکٹر) سی راج کمار وائس چانسلر، او پی جندل یونیورسٹی، سونی پت اور ڈاکٹر ارچنا منتری وائس چانسلر، چتکارہ یونیورسٹی، پنجاب شامل تھے۔
- اعلیٰ تعلیمی نظام کو بین اقوامی بنانے پر زور۔
- عالمی بیداری اور باہمی قناعت اعلیٰ تعلیم کی بین اقوامی کاری کے ذریعے۔
- عالمی کوالیٹی کے معیار کا ہدف حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
- زیادہ سے زیادہ تعداد میں بین اقوامی طلباء کو راغب کرنا، اور "گھر میں بین اقوامی کاری" کا ہدف حاصل کرنا۔
- یونیورسٹیوں میں غیر ملکی طلبا کی خاطر غیر معمولی نشستوں کے لئے انتظامات پیدا کرنا تاکہ ان کے اندراج میں اضافہ ہو۔
ائلیٰ تعلیم کے ادارون کے درمیان مفاہمت ناموں کے ذریعے تعلیمی اور تحقیقی تعاون۔
- کریڈٹ کی شناخت اور کریڈٹ ٹرانسفر، مشترکہ اور دوہری ڈگریوں کی گنجائش۔
- چوٹی کی ہندوستانییونیورسٹیوں کو دوسرے ممالک میں کیمپس قائم کرنے کی اجازت دینا، اور اسی طرح
- غیر ملکی اعلیٰ تعلیمی ادروں کو ہندوستان میں کیمپس کھولنے کی اجازت ۔
- ہندوستان کو ایک ترجیحی عالمی مطالعہ کی منزل کے طور پر فروغ دینے کے طریقے اور اقدامات دریافت کریں۔
- ہندوستانی اور غیر ملکی ایلیٰ تعلیمی اداروں کے درمیان تعلیمی تعاون کے لئے مختلف ماڈلز اور پلیٹ فارمز پر غور
وزارت تعلیم نے وارانسی میں 7 سے 9 جولائی تک شکشا سماگم کا انعقاد کیا ہے۔
وزارت نے نامور ماہرین تعلیم، پالیسی سازوں اور تعلیمی رہنماؤں کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا تاکہ وہ اپنے تجربات کو شیئر کر سکیں اور قومی تعلیمی پالیسی مجریہ 2020 کے موثر نفاذ کے لئے روڈ میپ پر تبادلہ خیال کریں۔ اس تقریب میں ملک بھر سے (مرکزی، ریاستی، ڈیمڈ اور پرائیویٹ) یونیورسٹیوں اور قومی اہمیت کے اداروں (آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم،این آئی ٹی، آئی آئی ایس ای آر) کے 300 سے زیادہ تعلیمی، انتظامی اور ادارہ جاتی رہنماؤں نے شرکت کی۔