آل انڈیا ڈسٹرکٹ لیگل سروسز اتھارٹی کی پہلی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ کسی بھی معاشرے کے لیے انصاف کی فراہمی اتنی ہی اہم ہے جتنی انصاف کے نظام تک اس کی رسائی۔ عدالتی ڈھانچہ بھی اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ آٹھ سالوں میں ملک کے عدالتی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے لیے تیز رفتاری سے کام کیا گیا ہے۔ اسے جدید بنانے کے لیے 9 ہزار کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔
آل انڈیا ڈسٹرکٹ لیگل سروسز اتھارٹی کی پہلی میٹنگ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ڈسٹرکٹ لیگل اتھارٹی کے چیئرمین اور سکریٹری کی اس طرح کی پہلی قومی میٹنگ ہے۔ یہ ایک اچھی اور مبارک شروعات ہے اور امید ہے کہ یہ مستقبل میں بھی جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے ایونٹ کے لیے منتخب کردہ وقت درست ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی اعتبار سے بھی اہم ہے۔ آج سے چند دن بعد ملک اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کر رہا ہے۔ یہ ہماری آزادی کے امرت کا وقت ہے، یہ ان قراردادوں کا وقت ہے جو اگلے 25 سالوں میں ملک کو نئی بلندیوں پر لے جائیں گے۔ کاروبار کرنے میں آسانی اور رہنے کی آسانی کی طرح ملک کے اس امرت سفر میں انصاف کی آسانی بھی اتنی ہی اہم ہے۔ آپ سب یہاں کے آئین کے ماہر اور جانکار ہیں۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہمارے آئین کے آرٹیکل 39 اے جو کہ ریاستی پالیسی کے ہدایتی اصولوں کے تحت آتا ہے، میں قانونی امداد کو بڑی ترجیح دی گئی ہے۔ انصاف کا یہ یقین ہر وطن عزیز کو یہ احساس دلاتا ہے کہ ملک کا نظام اس کے حقوق کا تحفظ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی سوچ کے ساتھ ملک نے نیشنل لیگل سروسز اتھارٹی بھی قائم کی، تاکہ کمزور سے کمزور کو بھی انصاف کا حق مل سکے۔
وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ای کورٹس مشن کے تحت ملک میں ورچوئل کورٹس شروع کی جا رہی ہیں۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی جیسے جرائم کے لیے 24 گھنٹے کی عدالت نے کام شروع کر دیا ہے۔ عوام کی سہولت کے لیے عدالت میں ویڈیو کانفرنسنگ انفراسٹرکچر کو بھی وسعت دی جارہی ہے۔ ایک عام شہری کو آئین میں اپنے حقوق سے آگاہ ہونا چاہیے، اپنے فرائض سے آگاہ ہونا چاہیے، اسے اپنے آئین اور آئینی ڈھانچے، قواعد و ضوابط اور اقدامات سے آگاہ ہونا چاہیے، اس میں ٹیکنالوجی بھی بڑا کردار ادا کر سکتی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ آزادی کے 75 سال کا یہ وقت ہمارے لیے فرض کا وقت ہے۔ ہمیں ایسے تمام شعبوں پر کام کرنا ہے جنہیں اب تک نظر انداز کیا گیا ہے۔ ہمارے ضلعی قانونی حکام ان قیدیوں کو قانونی امداد فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں۔ ملک میں زیر سماعت قیدیوں سے متعلق انسانی مسئلہ پر سپریم کورٹ کی حساسیت ماضی میں کئی بار دکھائی جا چکی ہے۔ بہت سے ایسے قیدی ہیں جو جیلوں میں سالوں سے قانونی امداد کے منتظر ہیں۔