ابوشحمہ انصاری، سعادت گنج،بارہ بنکی
’’باپ‘‘ نام ہے اس پیڑ کا جس کے سائے تلے زندگی مطمئن سی محسوس ہوتی ہے۔ چاہے لاکھ آندھی آئے، بجلی کڑکے، بارش برسے یا دھوپ اپنی تپش سے جلا دینے کی کوشش کرے یہ یہ پیڑ اپنی جگہ سے ہلے بنا ہر مشکل کو اولاد تک پہنچنے سے باز رکھتا ہے۔
ہاں یہ بات اور ہے کہ جب یہ کٹ کر گر جائے تو اس جیسا مضبوط سہارا نہیں ملتا جس کے تنے سے لپٹ کر زمانے ملی ہر تلخی کے لیے رو لیا جائے یا یہ خوف باقی نہ رہے کہ اس کے ہوتے ہمیں کچھ ہوسکتا ہے۔
باپ صرف ایک جذبے کا نام نہیں ہے ہاں وہ شخصیت ایک ہے اور روپ ہزاروں ہیں۔ کسی کا باپ نرم مزاج کا ہے، تو کسی کے لہجے میں سختی ہی سختی محسوس ہوتی ہے۔ کسی کا باپ اپنی اولاد کو سر پر بٹھائے رکھتا ہے تو کوئی باپ اولاد کو دھتکار کر پیچھے کرتا ہے۔ گزرتی عمر ہر کسی تجربہ مختلف ہے۔ جیتے کے طور طریقے الگ ہیں اور اولاد کی پرورش کے لیے اصول الگ ہیں مگر باپ نامی ذات صرف ایک ہی ہے۔ وہ اچھا ہے، برا ہے، پیار کرتا ہے یا مارتا پیٹتا ہے مگر وہ ہے تو باپ نا۔ اس کی تعظیم کرنا اولاد کا حق ہی نہیں فرض بھی ہے۔
مجھے اعتراض ہے ایسے لوگوں سے جو دوسروں سے اپنے باپ کی برائی کرتے ہیں۔ یہی لوگ اس انسان کے چل بسنے پر دھاڑیں مار کر روتے ہیں کیونکہ تب محسوس ہوتا ہے کہ باپ کی ڈانٹ تو تربیت کا ایک طریقہ تھی وہ نہیں ہے تو جیسے باقی کچھ بھی نہیں ہے۔
باپ کے ہوتے ہر آسائش آنکھوں کی دید بنتی ہے مگر یہ وجود نہ رہے تو ہر عید بھی بس سوگوار گزرتی ہے۔ وہ نام کہ جسے پکارتے، جس سے اپنی فرمائشیں پوری کرواتے زبان نہ تھکتی تھی جب وہی اپنی جگہ چھوڑ جائے تو لاکھ یہاں وہاں ڈھونڈو اس کا نعم البدل ملنا مشکل ہے۔
باپ کے رہتے جو لوگ نگاہیں نیچے کیے عزت سے بات کرتے تھے اس کے جانے کے بعد وہی لوگ آنکھیں ماتھے پر سجا لیتے ہیں۔ ویسے بھی گھر کا دروازہ ہی نہ رہے تو آنگن کی دیواریں اپنی حفاظت کیسے کر سکتی ہیں۔؟؟
جس کے ہونے سے جہاں مکمل لگتا تھا اس کے بعد اندھیرا شام سے پہلے پھیلتا دکھائی دینے لگتا ہے۔ سر سے سائباں چھن جائے تو چادر اوڑھانے کو آگے کوئی نہیں بڑھتا بلکہ سب کو اسے رسوا کرنے کی خواہش رہتی ہے۔
باپ نہ رہے تو کیسے لگتا ہے؟؟؟
ایسا لگتا ہے کہ جیسے انسان دنیا کی اس بھیڑ میں اکیلا کھو گیا ہو کہ جہاں مانوس چہرہ دیکھنے کی دعائیں بھی رائیگاں جاتی ہیں۔ رنگوں کو بدلتے دیکھنا پھر بھی سہن کیا جاسکتا ہے مگر باپ کے جاتے ہی لوگوں کا بدلا روپ دیکھ کر دھچکے پہ دھچکا لگتا جاتا ہے۔
اس رشتے کو چیخ چیخ کر پکارا جاتا ہے کہ ہمیں ہر حال میں اس کی ضرورت ہے۔ خوشی ملے یا غم، ایک آہ سی ابھرتی ہے جو نم کرتی آنکھوں میں یہ بات واضح دکھلا جاتی ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی باپ بنا سب ادھورا ہے۔
وہ بیٹی جو مان سے باپ کے کندھے پر کھیلتے بڑھی ہوئی تھی اپنے سر پر شفیق سایہ نہ پا کر وقت بے وقت اور بلا ساختہ رو دیتی ہے۔
جس شریک حیات نے اپنی زندگی کے اتنے سال گزارے ہوتے ہیں ہمسفر نہ رہے تو اس کی منتظر خالی آنکھیں اپنی بینائی کھونے لگتی ہیں۔
وہ بیٹا جو چاہتا کہ بڑے ہو کر باپ کا بازو بنے گا جب اسے نصیحت کرنے والا وجود خاک کی تہہ میں جاکر چھپ جائے تو احتجاجاً وہ اپنے مستقبل کی فکر کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
ایک رشتے کے چلے جانے سے ہر رشتہ ادھورا ہو جاتا ہے۔گھر کا بڑا کہیں گیا ہو تو پیچھے چھوٹے اس کے آنے کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ آئے اور بتائے کہ کون سا کام کیسے کرنا ہے مگر وہی بڑا جب بنا بتائے ابدی سفر پر گامزن ہو جائے تو چھوٹ جانے والے سوچتے رہ جاتے ہیں کہ انہیں تو کچھ خبر بھی نہیں اب معاملات کی ذمہ داری کون اٹھائے۔ پھر انہی چھوٹوں کو وقت سے پہلے بڑا ہونا پڑتا ہے۔ اپنے نازک وجود پر ہر کام کا بار لیے وہ اپنی شوخیاں کھو دیتے ہیں اور وقت سے پہلے عمر رسیدہ ہو جاتے ہیں۔
کچھ پر یہ مہربان سایہ نہ رہے تو وہ بگڑ جاتے ہیں کیونکہ انہیں سمجھانے والے کوئی نہیں ہوتا اور دنیا انہیں باپ کے طعنے دے کر مزید تلخ بناتی جاتی ہے۔ اور کچھ خود پر سنجیدگی لاگو کر کے اپنا آپ اس قدر سنوار لیتے ہیں کہ دیکھنے والا بے ساختہ باپ کی تعریفوں کے پل باندھنا شروع کردیتا ہے کہ فلاں کی اولاد نے اپنے مرے ہوئے باپ کی عزت کا ہمیشہ خیال رکھا۔
جب اولاد کو ہر طرف سے دھکے ملے تو اس کے آنسو یہ سوال بن کر لبوں سے بیان ہوتے ہیں کہ "بابا آپ ہمیں چھوڑ کر کیوں چلے گئے؟ آپ کا جانا بنتا نہیں تھا"
اسی سوال میں زندگی کا ہر دکھ سمایا ہوا ہے، بلکہ یہ ایک طرح سے اللہ سے کیا شکوہ ہے۔ جس نے ان کے باپ کو تب اپنے پاس بلا لیا جب انہیں ضرورت تھی۔ کون سا وہ ایسا گھر ہے جہاں موجود افراد کی چاہ نہ ہو کہ ان کے گھر سے بھی ایک گونج دار آواز سنائی دے۔ کون سے ایسے بچے ہونگے جو یہ نہ چاہتے ہوں کہ وہ اپنے لاڈ اٹھوا کر اپنے باپ سے فرمائشیں پوری نہ کروائیں۔ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ جب کسی بچے کو اس کے باپ سے پیار کرتے دیکھ رہے ہوں تو رشک کرنے کے ساتھ ساتھ جیلسی سی ہونے لگتی ہے نم آنکھوں میں بے بسی کے ساتھ ساتھ اذیتوں کا ذائقہ بھی محسوس کیا جاتا ہے۔ اب ہمارے سامنے اب کسی کو وہ چیز میسر ہو جس کے لیے ہم ترس رہے ہیں تو برا تو لگے گا نا۔ مگر پھر اللہ کی مصلحت ہر جذبے پر حاوی ہو جاتی ہے۔ آنکھوں میں امنڈتے آنسو صبر کی حد بن کر وہیں تھم جاتے ہیں۔ کاش کہ دنیا سے جانے والوں کو یہ بتانا ممکن ہوتا کہ زندگی ان کے بنا کس قدر ادھوری ہے۔
انسان چاہے کوئی ایم این اے یا پرائم منسٹر ہی کیوں نہ لگ جائے اس کی زندگی اپنے ماں باپ کی دی تربیت، ڈانٹ اور پیار سے بھری ہوتی ہے اس کی اولاد چاہے نئے زمانے کے جیسے نئی اقدار سے کتنا ہی وابستہ کیوں نہ ہو جائے کہیں نہ کہیں وہ باتیں ضرور ذہن نشین رہتی ہیں کہ ہم بھی اپنی اولاد کی پرورش ایسے کریں جیسے ہمارے والدین نے ہماری کی تھی۔
باپ کی ڈانٹ میں بھی پیار چھپا ہوتا ہے صبح ڈانٹے گا اور شام میں اسی بچے کے لیے کوئی نہ کوئی ہاتھ میں تھامے گھر داخل ہوگا اور دن بھر سے روٹھا بچہ سب کچھ بھلا کر فوراً باپ کی جانب بھاگتا چلا جائے گا۔
یہ وہ پرسہ ہے کہ جو ملتا رہے زندگی آسان ہے چھن جائے تو کائنات سے ملی ہر تسلی بھی رائیگاں جاتی ہے۔ باپ صرف ضروری ہی نہیں ضرورت بھی ہے جس کے ہوتے خوشیاں در پر کھڑی رہتی ہیں اور جو نہ پلٹے تو دکھوں کو رہائش کی نئی جگہ مل جاتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ باپ نہ رہے تو باقی کچھ بھی نہیں بچتا۔
(مضمون نگارہفت روزہ "نوائے جنگ"لندن کے لکھنٶبیورو چیف ہیں)