امتیاز احمد خان
حکومت ہند کی ہر گھر ترنگا مہم، دیگر ریاستوں کے ساتھ ساتھ جموں کشمیر میں زور و شور کے ساتھ جاری ہے اور آئے دن مختلف مقامات پر ترنگا ریلیاں منعقد ہو رہی ہیں ۔ یہ پہلا موقع ہے جب جموں کشمیر میں اس نوعیت کی انوکھی مہم میں عوام بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ اس سے قبل یوم آزادی کے موقعے پر ہی سیاسی رہنمااور اعلیٰ افسران عوام اور اسکول کے بچوں کے سامنے قومی پرچم یعنی ترنگا لہرایا کرتے تھے۔ رواں برس جب ہندوستان آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر پر جشن منا رہا ہے ایسے میں حکومت ہند کی 'ہر گھر ترنگا' مہم میں قومی پرچم لہرانے کا جوش نہ صرف مختلف سطحوں پر بچوں اور طالب علموں میں بلکہ ہر شہریوں میں دیکھا جا رہا ہے۔
غور طلب ہے کہ یہ موقع جموں و کشمیر میں زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ یہ تقریبات اس وقت منائی جا رہی ہیں جب کہ جموں وکشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں تبدیل ہوئے تین سال مکمل ہو رہے ہیں۔ یاد رہے کہ 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ ختم کر دیا گیا تھا اور اسے مرکزکے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے مطابق 13 سے 15 اگست2022 تک تمام عمارتوں اور گھروں پر قومی پرچم لہرایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کے فیصلے کے مطابق ہر گھر میں ترنگا لہرانے کو یقینی بنانے کے لیے تیاریاں پہلے سے ہی جاری ہیں۔
ٓٓٓآزادی کا امرت مہوتسو کے تحت 75ویں یوم آزادی کے موقع پر ہر گھر ترنگا کی تقریبات کی تیاریوں اور سرگرمیوں کے لائحہ عمل کو حتمی شکل دینے کے لیے ڈپٹی کمشنر سرینگر، محمد اعجاز اسد نے حال ہی میں ایک میٹنگ کی صدارت کی۔ ضلعی کمشنر نے کہا کہ 11 اگست سے 16 اگست 2022 تک منعقد ہونے والے اس پروگرام کا مقصد شہریوں میں جذبہ حب الوطنی کو بیدار کرنا اور آزادی کی علامتوں کے احترام کے جذبات کو فروغ دینا ہے۔انہوں نے افسران پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے تمام ضروری انتظامات پہلے سے ہی کیے جائیں۔اس موقع پر ڈی سی نے تمام محکموں کے ضلعی سربراہان سے کہا کہ وہ قومی جھنڈوں کے لیے محکمہ وار درخواستیں ضلع ترنگا سنٹر میں جمع کرائیں جو کہ ڈی سی آفس میں قومی پرچموں کو جمع کرنے اور ذخیرہ کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے تاکہ تمام شرکاءمیں مناسب تقسیم ہو سکے۔ انہوں نے ملازمین کو متعلقہ اکاﺅنٹ ہیڈ میں جمع کروانے کی بھی تاکید کی۔میٹنگ کے دوران، تقریب کے ہموار مشاہدے کے لیے نوڈل افسران کو بھی بالترتیب رہائشی، ادارہ جاتی اور گاڑیوں کے ذرائع کے لیے نامزد کیا گیا۔انہوں نے محکمہ دیہی ترقی کے افسران سے کہا کہ وہ پنچایت سطح پر پروگرام میںPRIs کی فعال شرکت کو یقینی بنائیں جبکہ دیگر افسران کو بھی پروگرام کی کامیابی کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی۔اسی طرح سی ای او سے کہا گیا کہ وہ تمام ثقافتی سرگرمیوں کو طے شدہ سرگرمی کے منصوبے کے مطابق ترتیب دیں۔
بی جے پی کی سینئر لیڈر اور وقف بورڈ کی چیر پرسن ڈاکٹر درخشاں اندرابی کے مطابق بی جے پی قیادت اور حکومت کا تین اضلاع سری نگر، بڈگام اور گاندربل میں ایک لاکھ ترنگا لہرانے کا ہدف ہے۔ان کے مطابق کم از کم دو لاکھ ترنگے وسطی کشمیر کے تین اضلاع میں لہرائے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جھنڈے متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر اور پوسٹ آفس سمیت مختلف سطحوں پر عوام میں تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اس تعلق سے کہا کہ لوگ پرجوش ہیں اورہمیں یقین ہے کہ ہرگھر نہ صرف وسطی کشمیر میں، بلکہ وادی کے دیگر حصوں میں بھی پرچم لہرائے گا۔ وہ وسطی کشمیر کے اضلاع کی انچارج ہیں۔انہوں نے کہا کہ لوگ اپنے پیسوں سے ترنگا خریدنے کے لئے آگے آرہے ہیں۔ اس کی کم از کم قیمت 20 روپے رکھی گئی ہے، جب کہ لوگ اس سے زیادہ پیشکش کرنے کے لیے تیار ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگ پرچم کی عزت کی خاطر، زیادہ پیسے بھی خرچ کررہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو پرچم کے لیے 1000 سے 2000 روپے تک ادائیگی کرنے کو تیار ہیں،تاکہ 'ہر گھر ترنگا' مہم کے تحت زیادہ سے زیادہ گھروں تک ترنگے پہنچ سکیں۔
گزشتہ ماہ جولائی میں وادی کشمیر کا تاریخی لالچوک ،لالچوک نہ ہو کے ترنگا چوک نظر آرہا تھا۔بھارتیہ جنتا یووا مورچہ کے بینر تلے جمع ہوئے بائیکرس نے کرگل وجے دیوس منانے کے لئے ترنگا بائکرس ریلی نکالی جو کرگل میں وجے دیوس کے موقعے پر اختتام پذیر ہوئی ۔ اس دن کشمیر میں قوم پرستی کا پیغام دنیا تک پہنچانے کے لئے وادی کے مختلف حصوں سے بچوں، بوڑھوں اور خواتین سمیت بڑی تعداد میں کشمیری ہاتھوں میں ترنگا لیے انہیں رخصت کرنے پہنچے تھے۔چاروں طرف دکانوں پر قومی پرچم لہرا رہا تھا، چوک کے بیچوں بیچ گھنٹہ گھر پر بھی ترنگا تھا اور نیچے سڑک پر جمع بھیڑ بھی ترنگا ہاتھوں میں لیے کھڑی تھی۔ ترنگا تھامے چہروں پر کوئی مجبوری یا خوف نہیں تھا بلکہ قوم پرستی کا جذبہ تھا جو کشمیر میں امن، جمہوریت اور خوشحالی کی بحالی کا اعلان کر رہا تھا۔ نہ صرف کشمیر کے مختلف حصوں سے بلکہ جموں اور ملک کی دیگر ریاستوں سے تقریباً 400 بائیکرس ترنگا لے کر چوک پر جمع ہوئے تھے۔
اپنے ریڈیو پروگرام من کی بات میں وزیر اعظم نریندر مودی نے لوگوں سے ہر گھر ترنگا تحریک کو مضبوط بنانے کی اپیل بھی کی۔ نریندر مودی نے ان لوگوں کی بے مثال ہمت اور کوششوں کو بھی یاد کیا جنہوں نے آزاد بھارت کے پرچم کا خواب دیکھا تھا۔ انہوں نے تاریخ کے کچھ دلچسپ حصوں کو بھی ساجھا کیا ہے جس میںترنگے سے وابستہ کمیٹی کی تفصیلات اور پنڈت نہرو کے ذریعہ لہرائے گئے پہلے ترنگے کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 22 جولائی کا دن تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اسی دن 1947 میں قومی پرچم کو اپنایا گیا تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک ٹویٹ بھی کیا جس میں لکھا تھا "اس سال، جب ہم آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں، آئیے ہر گھر ترنگا تحریک کو مضبوط کریں۔ ترنگا لہرائیں یا 13 اور 15 اگست کے درمیان اپنے گھروں میں اس کی نمائش کریں۔ یہ تحریک قومی پرچم کے ساتھ ہمارا تعلق گہرا کرے گی۔"
جموں کشمیر کے سرحدی علاقوں میں اس مہم کو لیکر کافی جوش و خروش دیکھا جا رہا ہے ۔ سرحدی تحصیل اُوڑی میں 8اگست کو بائز ہائر اسکینڈری اسکول اُوڑی کے طلبا و طالبات نے ایک ریلی نکالی ، جبکہ خط پیر پنجال کے سرحدی علاقوں میں بھی مختلف ترنگا ریلیاں نکالی گئیں ۔ بی جے پی جموں کشمیر کے جنرل سیکرٹری وبود گپتا نے پونچھ میں حد متارکہ چوکنداآباد میں ترنگا یاترا نکالی جس میں مقامی لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ گھوڑ سواروں نے بھی اس مہم میںشمولیت کی غرض سے گھوڑوں پر ایک ترنگا ریلی نکالی جسے دیکھنے کے لئے شائقین کی ایک کثیر تعدادجمع ہوئی۔ سرحدی تحصیل کرناہ میں بھی اسکولی بچوں نے ایک ترنگا ریلی کا اہتمام کیا جس دوران وہاں کے عوام نے بھی اس ریلی میں شرکت کی ۔ اس طرح کی ترنگا ر ریلیوں کی اطلاعات جموں کشمیر کے طول و ارض سے موصول ہو رہی ہیں ۔جن میں سب بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں ۔ آزادی کے امرت مہاُتسو کے دوران جموں کشمیر کے عوام میں اس طرح کا جوش بین ثبوت ہے کہ انہوں نے 5اگست 2019کے فیصلے کو نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ وہ اس کا جشن بھی منا رہے ہیں ۔ ہر گھر ترنگا مہم میں اس طرح کا جوش و جذبہ ان سیاسی لیڈران کے منہ پر بھی ایک طمانچہ ہے جو5اگست کے فیصلے پر سوال اُٹھا رہے ہیں ۔ 5اگست 2022 کو جموں کشمیر میں ہڑتال نہ کرتے ہوئے عوام کا معمول کی سرگرمیاں انجام دینا بھی اپنے آپ میں ان سارے سوالات کا جواب ہے جو چند سیاسی لیڈران اپنے ذاتی مفاد کے لئے اس فیصلے کو ایک مدعا بنا رہے ہیں ۔