کابل، 12 اگست (انڈیا نیرٹیو)
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان کا اعلیٰ کمانڈر شیخ رحیم اللہ حقانی اپنے مدرسے میں خودکش حملے میں مارا گیا۔ طالبان حکومت کے نائب ترجمان بلال کریمی نے حقانی کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ کریمی نے کہا کہ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ملک کی معروف علمی شخصیت شیخ رحیم اللہ حقانی دشمن کے وحشیانہ حملے میں جام شہادت نوش کر گئے۔
حقانی پر دو سال قبل اکتوبر 2020 میں بھی حملہ ہوا تھا۔ یہ تیسرا موقع ہے جب حقانی پر حملہ کر کے اسے ہلاک کر دیا گیا۔ 2013 میں پشاور کے رنگ روڈ پر اس کے قافلے پر مسلح افراد نے حملہ کیا تھا۔ پھر وہ بحفاظت فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ شیخ رحیم اللہ حقانی پاکستان کی سرحد کے قریب صوبہ ننگرہار کے ضلع پچر او اگم کا رہائشی تھا۔
محدث کے طور پر جانے جانے والا، حقانی نے اپنی مذہبی تعلیم پاکستان میں صوابی اور اکورہ خٹک کے دیوبندی مدارس میں حاصل کی۔ حقانی کبھی صوبہ ننگرہار میں طالبان ملٹری کمیشن کے رکن کے طور پر وابستہ تھا۔ اسے امریکی فوج نے افغانستان کی بگرام جیل میں کئی لوگوں کے قتل لئے قید کیا تھا۔
افغانستان پر طالبان کے قبضے سے قبل وہ نو سال تک پاکستان میں رہا۔ حقانی نے پاکستان کے شہر پشاور میں ہرن کالونی میں مدرسہ زبیری بھی قائم کیا۔ اس مدرسے میں افغان شہری اور طالبان جنگجو مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اسے پشاور میں طالبان کا اہم اڈہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس مدرسے کے ذریعے پاکستان بھر اور بیرون ملک سے طالبان کے لیے چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی بھی اس میں مدد کرتی ہے۔
افغانستان کے محکمہ انٹیلی جنس کے سربراہ عبدالرحمن کے مطابق شیخ رحیم اللہ حقانی مدرسہ جبیر میں خودکش بم دھماکے میں مارے گئے۔ یہاں ایک شخص نے اپنی پلاسٹک کی مصنوعی ٹانگ میں چھپائے ہوئے دھماکہ خیز مواد سے دھماکہ کر دیا۔
ابھی تک کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ تاہم بعض طالبان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے مزاحمتی فورس یا دولت اسلامیہ کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ طالبان کی خصوصی پولیس نے حقانی کے قتل کی جانچ شروع کر دی ہے۔ حقانی کو افغانستان کے وزیر داخلہ اور حقانی نیٹ ورک کے رہنما سراج الدین حقانی کا نظریاتی سرپرست سمجھا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر اسے طالبان کا چہرہ بھی سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس دہشت گرد کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لاکھوں فالوورز ہیں۔