Urdu News

اویس اقبال، مذہبی اسکالرز کے لیے اویس ہیں

تحریر: آفتاب سکندر

تحریر: آفتاب سکندر

استاد کی بات، باتوں کی استاد ہوتی ہے۔ یہ کہنے والے اتالیق سے ایک واقعہ منسوب ہے کہ جب آپ پہلی بار جماعت میں درس و تدریس کی غرض سے جلوہ گر ہوئے تو نو ہندسے کا پہاڑا لکھا جس میں ارادتاً ایک غلطی چھوڑ دی جس کی جماعت کے تمام طلبا نے نشاندہی کروائی تو آپ نے پہلا سبق پڑھایا کہ آپ کو سب درست چھوڑ کر ایک غلطی ہی کیوں نظر آئی. بس دنیا بھی کچھ اسی طرح سے ہے آپ کے اوصاف کو پس پشت ڈال کر خامی پر ہی بات کرے گی۔ یہ نابغہ روز گار شخصیت واصف علی واصف تھے ایک ایسے مصنف جو کہیں کی بھی بات ہو آخر میں مذہبی تڑکا لگا کر قابلِ تحسین بنادیتے۔

مگر آج ہم ایسے  عظیم اخوند کے متعلق بات کریں گے جو اپنی باتوں کو مذہبی تڑکا لگانے کی بجائے ان کو عریاں کرکے حقیقت پیش کردیتے ہیں۔جامعہ کراچی میں جماعت کے ایک طالب علم نے جب مدرب سے سوال کیا کہ مرد و زن کے ناجائز جنسی ملاپ پر آپ کی کیا رائے ہے؟ تو اس پر مدرب گویا ہوئے اگر آپ کے پاس سو ہوٹل ہیں جو جہان آب و گل کے ہرسوں پھیلے ہوئے ہیں. ہر ہوٹل میں ہزار کمرہ ہے. آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں موجود ہوٹل کے 561 ویں کمرے کے اندر دو فریزر موجود ہیں۔چھوٹے فریزر میں آٹھ انڈے ہیں. ان میں پانچویں انڈے کے اندر دو بیکٹیریا جنسی ملاپ کے مرتکب ہو رہے ہیں تو اس سے آپ کو کوئی فرق پڑے گا؟ طالب علم نے اپنے سوال کا جواب پالیا۔یہ ذکی آخون اویس اقبال صاحب تھے. اویس کا مطلب بھیڑیا ہوتا ہے اور آج کے گوار ملاؤں کے لئے اس اویس کا اقبال بلند ہی ہے۔

اس نابغہ روز گار شخصیت پر پہلی نظر دورِ جدید کے پانچ فیصد عالم جاوید غامدی سے ایک مباحثہ پر پڑی. وہ مباحثہ تقدیر اور تدبیر کے موضوع پر تھا۔ جس میں واضح غامدی صاحب نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آپ مجھے کس طرف لے جانا چاہ رہے ہیں. غیر معمولی ذہانت کے مالک خوبرو نوجوان نے اچھا خاصا تاثر چھوڑا. بعدازاں حرفِ راز جس میں کوئی راز افشاں نہیں ہوتا اُس میں جب اوریا مقبول جان سے سوال کیا کہ خدا نے زمان و مکان سے باہر کدھر بیٹھ کر اس دارِ فانی کو تخلیق کیا؟

یہ وہ سوال تھا جس نے اوریا کی جان ہتھیلی پر ڈال کر شلوار گیلی کردی۔ وہ بیچارہ ادھر ادھر کی مارتا رہا۔ کچھ نہ بن پایا۔ایک دن اپنی برادری کے گروپ میں ایک تحریر پڑھی جس میں غامدی صاحب کے ساتھ بحث کا حال احوال تھا میں نے پروفائل وزٹ کی۔تو جناب دستیاب تھے اس طرح اویس صاحب سے ملاقات ہوئی۔

اپنے دورِ طالب علمی میں جامعہ پنجاب میں فارمیسی کے طالب علم تھے۔ جامعہ پنجاب میں جمعیت کے اچکے پن کے نشانہ بننے والے طلبا میں اویس بھائی بھی تھے۔وہاں سے جیو چینل گئے جہاں کسی جوہری نے اس ہیرے کو پہچان لیا اور ان کو میڈیا کی فیلڈ میں لے آئے جہاں یہ غامدی صاحب کے لئے اویس ثابت ہوئے۔

یہ تو بسلسلہ روزگار وابستگی ہے ان کی ذہانت اور علم دیکھنا ہے تو ان کی پہلی کتاب کا مطالعہ کیجئے. دی ایرو آف ٹائم فرام بگ بینگ ٹو ایٹرنی ایک ایسی کتاب ہے جو اربوں سال کی تاریخ کا احاطہ کرتی ہے. اس میں آپ اپنے ذوق کے حساب سے، اپنے شوق کے حساب سے، اپنی دلچسپی کے حساب سے جہاں سے چاہیں جدھر سے چاہیں اکتسابِ فیض کرسکتے ہیں۔آپ دورِ سکندر کی تاریخ پڑھنا چاہیں تو وہاں سے شروع کرسکتے ہیں۔ 712 عیسوی میں اصل ڈاکو کون تھا یہ جاننا چاہیں تو یہاں سے شروع کرسکتے ہیں۔ ہر پیج اپنی تاریخ رکھتا ہے۔ سائنس ہو، سماج ہو، معاشرت ہو ہر طرز کے ہونے والے واقعات کا احاطہ کرتی یہ کتاب آپ کو اویس بھائی پر فریفتہ کردے گی۔ ہمیں تو انہوں نے غامدی اور اوریا سے بحث کرکے ہی گرویدہ کرلیا تھا۔

پی کے فلم میں عامر خان نے کہا تھا کہ ایک پنڈت سے، بھگوان کی حفاظت تم کروں گے؟ کائنات میں ایسے اربوں گولے گھوم رہے ہیں اور تم ایسے ہی ایک چھوٹے سے گولے پر بیٹھ کر ایک چھوٹے سے شہر کی گلی میں بیٹھ کر بھگوان کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری لے رہے ہو۔ اس کو تمھاری حفاظت کی کوئی ضرورت نہیں۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو بھی کوئی ایسی سُرخی مہہ میسر ہو جس سے آپ کی چاشنی جاتی رہے تو اس کے لئے اس کتاب کا مطالعہ کیجئے۔ یہ کتاب آپ کو بتائے گی کہ جو دیوی دیوتاؤں کے لئے قتل و غارت کرتے تھے آج اُن کا نام و نشان ہی نہیں ہے۔کائنات کا حجم، سائز اور اس کی تاریخ بتا کر آپ کو نہ صرف آپ کی بلکہ آپ کے سیارے کی اوقات بتا دے گی۔

اویس بھائی کی دوسری کتاب

They were here from 1539 years.

یہ کتاب حال ہی میں مارکیٹ میں میسر آئی ہے۔ کافی متاثر کن ہے اس میں پندرہ سو شخصیات کی بائیو گرافی ہے۔ ان کے متعلق معلومات ہے۔ چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا ہے۔ اویس بھائی کے متعلق قوی گمان ہے کہ ان کی اگلی کتاب کاسمالوجی کے موضوع پر ہوگی اور وہ بھی پہلی ان دو کتابوں کی طرح شاہکار ہوگی۔ اویس صاحب سے جب پہلی بار فون پر گفتگو ہوئی  تو یہ عقدہ کھلا کہ ہم دونوں ہم خیال ہیں یوں گفت و شنید ہوئی۔فون کال کے اختتام پر میں نے اُن کو لاشعوری طور پر کہا اللہ آپ کو خوش رکھے۔ یہ سن کر ان کا قہقہہ نکل گیا۔ اگر وہ انشاء پڑھیں تو ان کے لیے پھر میرے وہی الفاظ ہیں۔

Recommended