راغب ضیاء مظاہری
جب ہم وطنِ عزیز کا چہرہ ماضی کے آئینہ میں دیکھتے ہیں۔تو ہندوستانِ جنت نشاں پر سفید فام قوم کا منحوس و ناپاک سایہ پڑا ہوا نظر آتا ہے۔آئینہ چونکہ اپنی فطرت سے بغاوت نہیں کرتا اس لیے وہ یہ بھی دکھاتا ہے کہ ہندی اقوام میں حریت کا صور پھونکنے والے اور ایک لمبے عرصے تک نہ صرف یہ کہ سامراجی استعمار سے برسرِ جنگ رہنے والے بلکہ میدانِ کارزار میں صفِ اول کے سرفروش مجاہدینِ وطن کے طور پر نظر آنے والے تنِ تنہا مسلمان تھے جس کی ایک وجہ مسلمانوں کے اقتدار کے سورج کا غروب ہوجانا تھا اور سامراجی طاقت کے ذریعہ بربادی کی آگ کا ان کے گھروں میں لگ جانا تھا اس لیے فطری طور پر عظمتِ رفتہ کی باز واپسی کے خیالات پوری توانائی اور بڑے شد و مد کے ساتھ ان ہی کے قلوب میں انگڑائیاں لے سکتے تھے۔
دوسرا محرک جو پہلے کی بہ نسبت زیادہ قوی تھا وہ ان کی شریعت میں مداخلت اختیار کرنا تھا جسے مسلمان کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا تھا۔کیونکہ اسے دین کی آبرو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے۔دین میں نمایاں طور پر دست درازی کا سلسلہ جاری ہو اور مسلمان خاموش تماشائی بنا رہے یہ ناممکن ہے۔
یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں نے استخلاصِ وطن کے لیے خوشی خوشی موت کو گلے لگایا جامِ شہادت نوش کیا لیکن اس کی عزت و حرمت پر آنچ نہیں آنے دی لیکن اس سب کے باوجود حالیہ دور میں برادران وطن کی تعصب و تنگ نظری انتہا کو پہنچ رہی ہے جب کہ ملک کی تقدیر ہم نے سنواری لیکن وہ بلا شرکتِ غیرے خود کو اس کا سچا وارث و جانشین تصور کرتے ہیں اور مسلمانوں کو حاشیہ پر رکھنے کا عمل برابر جاری ہے ہمارے آشیانوں کو اجاڑنے کے لیے انہوں نے کمر کس لی ہے ہماری تاریخ کو بدل کر رکھ دیا گیا۔
یہ سب حیرت انگیز نہیں کیونکہ سانپوں کی فطرت میں زہر کے علاوہ کچھ اور ہو بھی تو نہیں سکتا اس لیے ہمیں شکایت ان سے نہیں بلکہ اپنے وجود سے ہے ہمیں گلہ کسی اور سے نہیں بلکہ اپنی شخصیت سے ہے اور سچ بھی یہی ہے کہ آزادی کے بعد خرگوش کی نیند سوجانے والے اپنے ناکامی کا سہرا دوسروں کے سر کیسے ڈال سکتے ہیں۔ہم تو بس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر
یہ بتا کہ قافلہ لٹا ہے کیوں
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
لیکن دوستو میری اس تلخ نوائی سے اگر اب بھی تمہارے خوابیدہ احساسات بیدار نہ ہوں اور پھر بھی ہر میدان میں پسپائی کا بار اپنے شانوں پر لادا جایے اگر ہوش کے ناخن نہ لیے جائیں تو شاید پھر مزید کچھ کہنا سننا بے سود ہے جب احساس ہی مرچکا ہو تو پھر کسی کو کیا دوش دیا جاسکتا ہے۔
لیکن اگر حبہ بھر بھی عقل و خرد موجود ہے تو آیے نیے سرے سے زندگی کا آغاز کریں حوصلوں کا سرمایہ لیکر آگے بڑھیں اور خود بھی اپنے پیروں پر چلنا سیکھیے اور قوم کو بھی زندگی کا یہ راز سمجھادیجیے اور خدا کی اس عادت سے جو ازل سے جاری ہے ان کو روشناس کرادیجیےکہ
ان اللہ لایغیر مابقوم حتی یغیروا مابانفسھم
خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
جب ایک تنکا بھی اپنی جگہ نہیں چھوڑتا جب تک کہ اسے برطرف نہ کردیا جائے تو بھلا قوموں کے حالات میں کیسے انقلاب آسکتا ہے اس لیے آیے اور خود کو محنت کا عادی بنایے انسانیت نوازی و چارہ سازی اپنا شیوہ بنایے اور ملک و قوم کی خدمت کو عظیم عبادت تصور کیجئے غفلت ولاپرواہی کو خیرہ باد کہہ دیجئے۔
بے مقصد زندگی گذارنے سے سچی توبہ کیجئے زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کیجیے زندگی کے ہر میدان میں ترقیات کے جھنڈے گاڑ دیجیے ملک کے باوقار و معزز عہدوں کو اپنے وجودِ پاک سے زینت بخش دیجیے اپنے پرائے خویش و بیگانے کا فرق مٹاکر احترامِ انسانیت کی روایات زندہ کیجئے۔
عدل و انصاف کا پرچم چپہ چپہ پر لہرادیجیے
مسائل کا سامنا بزدلی سے نہیں حوصلہ و ہمت سے کیجیے
پھر دیکھیے حالات کے بادل چھنٹیں گے اور مایوسی کی تاریکی کافور ہوگی اور راہیں ایسی روشن ہوجائیں گی کہ قوم کے مستقبل کا سفر بآسانی طے ہوجائے گا اور ہمیں احساس تک نہ ہوگا۔
اور آیت قرآنی واماما ینفع الناس فیمکث فی الارض کی عملی تفسیر ہمارے نگاہوں کے سامنے ہوگی۔دوسرا کام جس کا انجام دینا بہت ضروری ہے وہ نسلِ نو کو اپنے پرکھوں کی تاریخ سے روشناس کرانا ہے انہیں یہ احساس دلانا ہے کہ جو قوم اپنے تاریخی ورثے کی حفاظت نہیں کرتی تو اس کا وجود خاک میں مل جاتا ہے۔تاریخ ہی کسی قوم کا وہ قیمتی سرمایہ ہے جو اسے پستیوں سے بلندیوں کی طرف قدم اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔
حالات سے پنجہ آزمائی کا ہنر سکھاتا ہے ترقیات کے نشیمن تعمیر کرنے کی تعلیم دیتا ہے اسلیے ان پھول کی پنکھڑیوں کی طرح نازک و معصوم طبیعتوں کا سر رشتہ تاریخ سے استوار کیجے اور گلے شکوے کرنے کے بجائے حالات کی تاریکی کو جفاکشی کی شمع سے دور کرڈالیے
اور اس پر ایمان رکھیے۔
شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصہ کی کوئی شمع جلاتے جاتے
15اگست بروز پیر