آفتاب سکندر
میں نے لکھنے کے لیے ایک ہی اصول اپنایا ہوا ہے جس کا ذکر کچھ یوں کرتا ہوں کہ میرا قلم منصف ہے مصنف عقائد نہیں حقائق لکھتا ہے۔ میرا لکھا گیا ایک ایک حرف معاشرتی درد کی عکاسی کرتا ہے۔ میرے قلم کی سیاہی میں دردِ دل کی چاشنی ہے۔
چونکہ 5 اکتوبر یومِ اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے تو اس پر اکثر لوگ اپنے اساتذہ کی تعریفوں کے پل باندھتے نظر آتے ہیں۔
میں نے جب نرسری میں داخلہ لیا تو معزز اساتذہ کرام کی مار پیٹ تو کوئی ان ہونی بات نہیں تھی ماشاءاللہ سے ہمارے استاد محترم جلاد صفت تھے نرسری کے بچوں کو مار تے پیٹتے تھے شاید ان کی تربیت ایسی تھی۔ جماعت چہارم میں ہمارے ایک استاد صاحب نے لوہے کے ٹکڑے کے ساتھ مار پیٹ کی اور میرے ہم جماعت کی کولہے کی ہڈی میں فریکچر ہوا تھا۔ جس پر اس کے والدین اسکول آکر جھگڑا کیا تھا۔
اُن وقتوں میں مار نہیں پیار کا نعرہ زبانِ زدِ عام تھا والدین اچھے تھے انہوں ایف آئی آر درج کروا دیں تھی۔ جب تفتیشی افسر آئے تو ہمارے عزیز محترم انچارج صاحب نے پوری جماعت کے طلبا کو سمجھایا کہ بچوں تفتیشی افسر کو کچھ نہیں بتانا مگر ہماری جماعت میں ایک ہمت والے بچے نے کام کردکھایا اور تفتیشی افسر کو لوہے کی چھڑی دکھادی جہاں چھپائی ہوئی تھی۔
اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑا وہ موصوف باقاعدہ ملازمت کرتے رہے۔ ہمارے اسکول میں کمرہ جماعت کی صفائی باقاعدگی کے ساتھ طلبا سے کروائی جاتی تھی اور ہمارے استاد محترم زمینداروں کے بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے تھے صفائی نہ کرنے پر، سرزنش کرتے تھے۔ یاد رہے کہ اس سرزنش میں غلیظ گالیاں بھی شامل ہوا کرتی تھیں اور یہ وطیرہ ہائی اسکول میں بھی اپنایا گیا تھا وہاں پر بھی ہمارے استادِ محترم ہم سے کمرہ جماعت کی صفائی کرواتے تھے اور وہ اسکول تین سے چار ایکڑ پر محیط تھا یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ تو اس طرح جھاڑو لگوایا جاتا تمام اساتذہ کرام کی نگرانی میں اور اسمبلی پر جلاد نما پی ٹی جھاڑو سے طلبا کی خاطر مدارت بھی کرتا تھا۔
سینئر ہیڈ ماسٹر صاحب تھے وہ ہم لوگوں سے جھاڑو لگواتے اور خود صریحاً بددیانت ہونے کے باوجود وہ خود کو افلاطون سمجھتے کہ میں کوئی بڑا اچھا اور ذمہ دار بندہ ہوں طلباسے صفائی کرواتا ہوں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہمیں تھپڑ بھی پڑے اساتذہ سے صفائی کی وجہ سے۔ وہ کام جو طلباکا سرے سے تھا ہی نہیں۔ طلبا کی ذمہ داری میں آتا ہی نہیں تھا، اس کے علاوہ کرسی، میز اٹھا کر رکھنی ہوتی تو وہ خدمت بھی اساتذہ کرام بچوں سے لیتے اور ایک بات جو میں بھول گیا ہمارے چہارم، پنجم جماعت کے ایک شریف النفس استاد صاحب گنے کی فصل کاشت کروانے کی خدمت بھی ہم طلبا سے ہی لیتے تھے اور ایک استاد محترم جھاڑیاں کٹوانے کی غرض سے بھی طلبا کو بلواتے تھے۔ اور اُن صاحب نے تو ایسا ویسا کرنے کی کوشش بھی کی تھی ایک بچے کے ساتھ۔
وہ تو اللہ پاک کی کرم نوازی ہے کہ وہ قوم کا سپوت بچ کر آگیا اور دوسرے دن گھر والوں کو ساتھ لے آیا۔ یہ سب ہوتی رہی ہیں یہ بیان کرنا کوئی جرم نہیں سچ لکھنا ،حقائق لکھنا جرم نہیں ہوسکتا اس لیے یہ باتیں لکھنا قطعاً غلط نہیں ہے۔
بہرکیف ڈگری کالج میں جو کچھ دیکھا وہاں تو ہر حد ہی پار تھی اساتذہ کرام لیکچر لیتے ہی نہیں تھے۔ہمارے کالج کے وائس پرنسپل جو 20 ویں اسکیل کے اسسٹنٹ پروفیسر تھے اسلامیات کے اور بہت بڑے مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے جدی پشتی صاحبزادے خطیب تھے ۔میں جھوٹ نہیں لکھ رہا ڈیڑھ لاکھ تنخواہ لینے کے باوجود وہ سال میں ایک یا دو لیکچر وہ بھی منہ دوسری طرف کرکے پڑھاتے ہوئے لیتے تھے۔
یہی نہیں کیمسٹری کے لیکچرار جو پی ایچ ڈی کررہے تھے وہ 12 بجے آتے تھے اور ایک آدھ لفظ پڑھاتے اور یہ ظاہر کرتے کہ یہ بھی میں تم لوگوں پر احسان کررہا ہوں۔وہ صاحب نجی کالج میں آدھے معاوضے پر گالیاں سن کر پڑھاتے اور ادھر ہمیں نخرہ دکھاتے۔ انگلش کے استاد محترم وہی کچھ پڑھاتے جو نصاب کا حصہ نہ ہوتا۔
ایک بار ایسا ہوا کہ ڈائریکٹر صاحب نے کالج کا دورہ کیا۔ کسی طالب علم سے پوچھا کہ بتائیں کہ آج کتنے منٹ کا لیکچر ہوا ہے سچ سچ بتاؤ، اس نے جواب دیا کہ جی سر فقط پانچ منٹ کی کلاس ہوئی ہے۔ پھر کیا تھا کہ دوسرے دن سر نے لڑکے کو کھڑا کر کے پوچھا اور کہا کہ میں تمھیں کچھ نہیں کہتا مگر یار ساتھ یہ بھی بتادیتے کہ ہمارے اسلامیات کے لیکچرز پورا سال نہیں ہوتے وہ تو تم نے نہیں بتایا۔ افسوس کہ بہت کچھ تھا اور صد افسوس کہ ہم میں شعور آج بھی نہیں سب کچھ ہو رہا ہے اور ہم خاموش تماشائی ہیں۔ ڈگری کالجز میں تو مکمل نظام بگڑا ہوا ہے۔ بہت افسوس کی بات ہے کہ میں ان لوگوں کے خلاف دورِ طالب علمی میں کھڑا نہیں ہوا۔
یہ یہیں تک نہیں ہے جامعات میں تو پروفیسرز خود کو خدا کے منصب پر فائز سمجھتے ہیں اس پر پھر کبھی تفصیل سے قلم بند کروں گا۔