آفتاب سکندر
انداز بیاں اگرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
میں جب قلم اُٹھاتا ہوں تو عقائد نہیں، حقائق لکھتا ہوں. میرا لکھا گیا ہے ایک ایک حرف معاشرتی درد کی عکاسی کرتا ہے۔میں نے ایک حرف بھی معاشرتی درد کے بغیر نہیں لکھا۔
میری تحاریر، تصانیف ،کالم اور نثر معاشرتی درد کی نوحہ گر ہیں میرے قلم کو سمجھنے کے لیے وہی قاری، خوانندہ، پاٹھک، ودیارتھی،متعلم ،داعی چاہیے جو الفاظ میں پنہاں معاشرتی درد کو سمجھنے کی سعی کرتا ہو۔
بادلِ ناخواستہ کل ایک نوحہ گری، گریہ زاری اور حیف و ملال کے غلط معیار پر قلمبند کرنا پڑا تو دوست احباب کو بطالت و شہامت، جسارت و جلاوت ،شجاعت و جرآت اور بیباکی و بیرتا سے معترض ہوتے دیکھ کر دل دہل گیا کہ آخر قارئین، سامعین جیسے بدخوئی کے لیے تشنہ لب بیٹھے تھے اور جھٹ سے جھپٹ پڑے۔
بہرکیف مدعے کی طرف آتے ہیں تو بات دراصل یہ ہے کہ احباب کو مجھ سے لاکھ شکایت سہی مگر اس پر غور و غوض کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک قانون مرتب کیا گیا ہے نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم و تعلم کے لئے۔
وہاں پر جو بھی بطورِ معلم فرائضِ منصبی ادا کرے گا کہ اس کے لئے لازم و ملزوم شرط ہے کہ اس کی تعلیمی قابلیت گریجویشن ہونی چاہیے اور معاوضہ میں بھی ایک معقول رقم مقرر ہے کہ اس سے کم پر نجی تعلیمی اداروں کے مالکان جواب دہ ہوں گے کیونکہ بہرصورت تعلیم یافتہ افراد کے استحصال سے بچنا مقصود و مفقود ہے۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہی رہا ہے کہ ہمیں شروع دن سے ہی اپنے مسائل کے حل کا ادراک نہیں رہا ہے۔جب ہم ایسے اساتذہ کو دیکھتے ہیں جن کی تعلیمی قابلیت مکمل نہیں ہے اور قوانین کے مطابق وہ بطورِ معلم فرائض سرانجام دینے کے اہل نہیں ہیں تو یہ ہمارا دینی، مذہبی، اصولی ،قانونی اور اخلاقی فرض بنتا ہے کہ بطورِ معزز شہری اس کی مخالفت کریں اور اس کے ادراک کے لئے اپنی بساط کے مطابق آواز اُٹھائیں۔
ہمارا سب سے بڑا یہی المیہ رہا ہے اور رہے گا آپ خود انصاف کریں اور یقین سے بتائیں کتنے پڑھے لکھے افراد کی نظر سے یہ اس شخص کی کہانی گزری۔ کتنے پڑھے لکھے افراد نے اس کی تائید میں آواز بلند کی۔
یہاں تک کہ نجی چینل والے انٹرویو کرنے پہنچ گئے۔حد ہوگئی ہے یار کچھ تو خدا کا خوف کرو۔ اتنے بھی آداب سے واقف نہیں ہوں۔ یہ مسئلہ کسی نے کیوں نہیں اُٹھایا۔ نجی تعلیمی اداروں کے مالکان ایک مافیا ہیں۔ اور اس مافیہ کا حصہ ایسے اساتذہ بھی ہیں جو یہ کام سر انجام دیتے ہیں۔ کسی کا حق مارتے ہیں.
کسی کا استحصال کرتے ہیں وہ تو جو فرائضِ منصبی ادا کر رہا تھا اس کے لئے اہل نہیں تھا اس لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ تو حرام کھارہا تھا دینِ اسلام کی روح سے۔جب کہ اب تو وہ شریعتی محمدی کے عین مطابق وہ رزقِ حلال کمانے کی طرف راغب تھا اور یاد رہے کہ رزقِ حلال کمانا عین عبادت ہے۔
نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کی یہ بےحسی اور ظلم و زیادتی ہر جگہ پائی جاتی ہے۔یہاں میرے علاقے میں ایک میٹرک پاس حضرت صاحب کسی ادارے میں فرائضِ منصبی ادا کرتے ہوئے بھگوڑے بن گئے ۔ قریب آٹھ سال ملازمت کے بعد وہ ملازمت چھوڑ گئے۔جس کسی نے بھی مشورہ دیا انہوں نے نجی تعلیمی ادارہ کھول لیا کاروبار میں بسم اللہ کردی۔
یقین مانیں آپ حیران رہ جائیں گے کہ ان کا ادارہ اچھی خاصی اہمیت کا حامل ادارہ ہے۔ انہوں مڈل تک تعلیم کا ادارہ کھولا تھا. اب وہ میٹرک سے ہوتا ہوا سیکنڈری سکول اینڈ کالج کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔یہی نہیں اللہ رب العزت کی کرم نوازی سے موصوف دوسرے ضلع میں بھی سکول اینڈ کالج کی دوسری شاخ کی بنیاد رکھی ہے۔
اندازہ کریں کہ ان کے میٹرک کی سند ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں مگر ورطہ حیرت میں مبتلا کرکے انگشتِ بدنداں کرتے ہوئے انگشت بہ لب کردینے والی بات یہ ہے کہ موصوف انٹر لیول پر طبعیات پڑھاتے ہیں اور دھڑلے سے اس کا اظہار بھی کرتے ہیں ویسے حد ہوگئی ہے کہ ان کے پاس ایک مضمون کی تعلیم ہی نہیں ہے اور وہ اس کی تدریس کس منہ سے کررہے ہیں۔
میرے ایک دوست جامعہ سے بی ایس طبعیات (Bs hons physics) اول درجہ میں (first division) میں پاس کی. اور بے روزگاری کی وجہ سے ایک نجی ادارہ میں انٹرویو کے لئے گئے وہ داستان سناتا ہے کہ نجی ادارہ کے انٹرویو ہر چیز پوچھی گئی ماسوائے طبعیات کے۔
انہوں نے فارغ کر دیا اور بلایا نہیں ہے۔ چند ایام بعد ایک رقیبِ خاص سے ملاقات ہوئی۔ وہ رقیبِ خاص اُسی تعلیمی ادارہ میں طبعیات کا استاد بنا ہوا تھا۔ حالانکہ اُن بھائی صاحب کی اپنی تعلیم و تعلم چل رہی ہے ورچوئل جامعہ میں وہ بھی کمپیوٹر سائنس کے مضمون میں۔حد ہوگئی ہے یار۔
مطلب ایک ادارے نے طبعیات میں تعلیم یافتہ بندے کی بجائے کمپیوٹر سائنس پڑھنے والے طالب علم کو بطور استاد رکھ لیا. اس کے پیچھے وجہ یہی ہونی ہے کہ ہڈ حرام مافیہ اس کو کم معاوضہ دیتا ہوگا اور وہ بھی جانتا ہے کہ میں کونسا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں اس طرح یہ سلسلہ چل نکلتا ہے جس سے مافیہ کا پیٹ پلتا ہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بیروزگاری کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
اسی طرح میرے ایک جاننے والے مدرسہ سے فارغ التحصیل درسِ نظامی پڑھنے والے موصوف نجی تعلیمی ادارے میں ایم اے اسلامیات کی نششت پر براجمان ہوئے بیٹھے ہیں۔
مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے میرے ایک دوست جو جامعہ میں طبعیات کے پہلے سیمسٹر میں ہی لُڑھک کر گھر چلے گئے تھے آج کل ایک نجی ادارے میں طبعیات کے استاد کی حیثیت سے تعلیم و تعلم کا سلسلہ بڑھا رہے ہیں۔