Urdu News

پاکیزہ کی بددعا(افسانہ)

ارشاد انصاری،سعادت گنج، بارہ بنکی

ارشاد انصاری،سعادت گنج، بارہ بنکی

ہم جب کسی کے لئے گڑھا کھودتے ہیں تو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اس گڑھے میں ہم خود بھی گر سکتے ہیں۔

پاکیزہ نے امل کی طرف دیکھ کر کہا “میں نے تمہیں اپنی سہیلی نہیں بہن سمجھا تھا لیکن تم نے مجھے یہ بتا دیا کہ میں نے تم پہ اعتبار کر کے غلط کیا۔۔

زندگی میں میری سب سے بہترین دوست نے مجھے کہابھی تھا ” نئے دوست بنانے سے پہلے سوچنا” لیکن میں یہ سمجھی تھی “جس سے ایک بار دل سے رشتہ قائم ہو جائے تو پھر تاحیات اس کو نبھانا ہوتا ہے۔”

امل جو پاکیزہ کو دیکھ کر اس کی باتیں سن کر مسکرا رہی تھی۔ پاکیزہ نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور امل سے کہا “آج تم نے میرے ساتھ جو کیا کل تمہارے سامنے ضرور آئے گا وہ یہ کہہ کر رکی نہیں تیز تیز قدم اٹھاتی گھر کی طرف روانہ ہوئی لیکن سارے رستے روتی رہی اسے صرف اس بات کا، دکھ تھا کہ وہ دوست بنانے میں چوک کیسے گئی۔

پاکیزہ نے بی۔اے کے بعد سلائی سنٹر میں داخلہ لیا تھا اور جلد ہی اس کی دوستی امل سے ہو گئی پاکیزہ اپنی ماما کے ساتھ رہتی تھی جب کہ امل اپنے والد کے ساتھ دونوں کے بہن بھائی نہیں تھے اسی لیے جلد دوستی مضبوط ہو گئی وہ اکثر اکٹھے کام کرتیں۔

اور تمام کلاسز لینے کے بعد وہ اکٹھے ہی سنٹر سے نکلتیں۔

پاکیزہ ایک اچھی لڑکی تھی جب کہ امل بات بات پہ لڑنے والی اکثر پاکیزہ اسے سمجھاتی لیکن وہ اسے بھی ڈانٹ دیتی تو پاکیزہ یہ سوچ کر چپ ہو جاتی شاید اپنی ماں کی کمی اسے محسوس ہوتی ہے اس لئے ایسا کرتی ہے پاکیزہ نے اسے ایک اچھی لڑکی سمجھ کر دوستی کی لیکن امل نے اپنی کسی غرض سے اس سے دوستی کی کیونکہ اسے کپڑوں کی کٹنگ میں مسئلہ ہو رہا تھا اس نے فیصلہ کیا کہ جاتے ہوئے پاکیزہ کو ایک گھنٹہ اپنے گھر روکا کرے گی اور اس سے جو چیز سمجھ نہیں آتی سیکھ لیا کرے گی۔

پچھلے دو ماہ سے پاکیزہ نے اپنی ماما سے اجازت لے کر امل کے گھر جانا شروع کیا تاکہ وہ اپنی بہن جیسی دوست کی مشکل کو دور کر سکے۔

لیکن اسے یہ پتہ نہیں تھا امل نے محض اسے پھنسانے کے لئے اپنے گھر بلایا۔

امل کا کزن ایک ہفتے سے امل کے گھر اسوقت آتا جب پاکیزہ اور امل گھر پہنچ جاتیں اور پاکیزہ اسے کچھ نہ کچھ بتا رہی ہوتی۔

پاکیزہ نے کئی بار اسے کہا بھی اس کے بابا گھر نہیں ہوتے تو وہ اپنے کزن کو منع کر دے جب ہم اکیلی ہوتی ہیں تو وہ نہ آیا کرے اس کے گھر۔۔۔

لیکن امل نے یہ کہہ کر پاکیزہ کو مطمئن کر دیا یہ میرے بھائی جیسا ہے۔ میں اسے کیسے منع کر سکتی ہوں۔ “

کچھ دنوں سے پاکیزہ نے نوٹس کیا امل کا کزن عادل عجیب نگاہوں سے اسے دیکھتا ہے۔”

اس کی کوشش ہوتی وہ فوراً امل کے ساتھ اس کا کام ختم کروا کر گھر چلی جایا کرے۔

 آج جب وہ جانے لگی تو عادل نے حد کر دی پاکیزہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگا “مجھے تم بہت اچھی لگتی ہو تمہارا مجھے نظر انداز کرنا بہت برا لگتا ہے۔

پاکیزہ نے اسے بہت سمجھایا لیکن وہ کسی طور نہ مانا تو پاکیزہ نے ایک تھپڑ اس کے منہ پہ رسید کر دیا۔

عادل نے اپنا منہ سہلاتے ہوئے کہا” میں

تم سے اس کا بدلہ ضرور لوں گا”

پاکیزہ فوراً امل کے پاس گئی جو کچن میں کچھ بنانے کی غرض سے گئی تھی۔

اور اس نے امل کو ساری بات بتائی تو امل کہنے لگی “تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے میرا کزن ایسا نہیں۔”

پاکیزہ کے بتانے پر بھی وہ نہ مانی۔ پاکیزہ نے یہ طے کر لیا اب وہ امل کے ساتھ اس کے گھر نہیں آئے گی

دوسرے دن تمام کلاسز لینے کے بعد امل نے پاکیزہ کو ساتھ جانے کا کہا تو اس نے صاف انکار کر دیا۔

امل کے بہت اصرار پر بھی پاکیزہ اس، کے ساتھ نہیں گئی۔

اس بات کو گزرے ایک ماہ گزر چکا تھا۔

سب کچھ نارمل تھا پاکیزہ نے اپنی ماما کو بتایا تھا کہ یہ بات ہوئی اس کی ماما نے بھی اسے امل کے گھر جانے سے منع کر دیا۔

لیکن آج جب سنٹر سے دیر سے چھٹی ہوئی اور پاکیزہ گاڑی کے انتظار میں کھڑی تھی  امل اس کے پاس آئی اور کہنے لگی۔

“پلیز پاکیزہ مجھے معاف کر دو میں تم سے دوستی ختم نہیں کرنا چاہتی۔”

آج تم میرے ساتھ میرے گھر چلو میرے بابا بھی پوچھ رہے تھے میں نے انہیں ساری بات بتائی تو کہنے لگے اپنی دوست کو گھر بلاؤ میں اس کی غلط فہمی دور کروں گا۔ “

” پاکیزہ اس کے ساتھ جانا نہیں چاہتی تھی لیکن امل نے جب اپنے بابا کا ذکر کیا تو وہ اس کے ساتھ چل دی۔

اور جب وہ امل کے ساتھ اس کے گھر پہنچی تو امل نے فوراً دروازہ بند کر دیا اسے کمرے میں جانے کا کہا تو پا کیزہ کہنے لگی” تمہارے بابا کہاں ہیں “

امل مسکرانے لگی اسی دوران عادل اس کے پاس آیا اور اسے بازو سے پکڑ کر کہنے لگا ” آج تم مجھ سے نہیں بچ سکتی”

پاکیزہ نے امل کی منت کی ” وہ عادل سے اسے بچائے لیکن وہ تو جیسے سن ہی نہیں رہی تھی۔”

جب پاکیزہ نے دیکھا عادل اسے نہیں چھوڑ رہا اس نے عادل کے ہاتھ پہ زور سے کاٹا۔

اور عادل کی گرفت ڈھیلی ہونے پہ فوراً اپنے آپ کواس سے چھڑا کر بھاگ گئی۔ اور باہر نکلتے وقت اس نے باہر سے گیٹ بند کر دیا۔

وہ مشکل سے گھر پہنچی لیکن اپنے رب کا شکر ادا کیا کہ اس کی عزت محفوظ رہی۔

اس کے بعد پاکیزہ نے امل سے دوستی ختم کر دی۔

لیکن کچھ دن بعد جب پاکیزہ گھر میں بیٹھی کپڑے سلائی کر رہی تھی تو اس کی دوست ایک اخبار لیے اس کے پاس پہنچی جس میں امل کی تصویر چھپی تھی جس میں خبر تھی  امل نے خود کشی کر لی۔

پاکیزہ بہت افسردہ ہوئی اور یہ سوچنے لگی جب ہم انسان کسی کا برا سوچ رہے ہوتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں ہمارے ساتھ بھی ایسا کچھ ہوسکتا ہے لیکن اس لمحے ہم اپنے آپ کو برتر سمجھ کر رب کو بھول جاتے ہیں۔

اور یہ ہی ہماری سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے۔

پاکیزہ نے امل کو بد دعا نہیں دی لیکن جو آنسو اس کی آنکھوں سے نکلے تھے جو درد اس نے محسوس کیا تھا وہ آنسو، اوراس کی آہ عرش پر پہنچی تو وہ بددعا بن کر امل کے راستے میں آئے یوں امل کو اس کے کئے کی سزا ملی اس لئے کسی کے ساتھ برا کرنے یا ظلم کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچیں کہ آپ بھی اس درد اور ظلم کی چکی میں پس سکتے ہیں کیونکہ رب کو اپنے سب بندوں سے پیار ہے اور وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

امل نے جو گڑھا پاکیزہ کے لئے کھودا تھا وہ آج خود اس گڑھے میں گری ویسے ہی کسی نے اسے اپنی محبت کا یقین دلا کر بلایا اور پھر اس کی عزت کی دھجیاں اڑا دیں جس کی تاب وہ نہ لا سکی اور خود کشی جیسی موت کو گلے لگا لیا۔

کیونکہ وہ یہ تکلیف برداشت نہ کر سکی۔ اس لئے دوسروں کے ساتھ برا کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں “کیا آپ ایسی تکلیف سہہ سکیں گے کہ نہیں – اور خود کو کسی کی بددعا کے حصار میں دینے کی بجائے اپنے عمل کو بہتر بنائیں تاکہ آپ کسی کی آہ سے بچ سکیں اور ایک بہترین زندگی گزار سکیں جس میں سکون ہو۔

جب آپ اچھا کریں گے تو اچھا ہو گا اور برا کریں گے تو اپنے ساتھ بھی برا ہونے کے لئے تیار رہیں۔

Recommended