Urdu News

پیر پنجال میں سیاحتی شعبہ کو فروغ دینے کے لیے نوجوانوں نے لیا سوشل میڈیا کا سہارا

پیر پنجال میں سیاحتی شعبہ کو فروغ دینے کے لیے نوجوانوں نے لیا سوشل میڈیا کا سہارا

جموں وکشمیر یوٹی کے سرحدی اضلاع راجوری اور پونچھ میں سیاحتی شعبہ کو فروغ دینے کے وسیع تر امکانات موجود ہیں ۔

صوبہ جموں میں لائن آف کنٹرول پر واقع مذکورہ دونوں اضلاع قدرتی حسن سے مالامال ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم تاریخی ثقافتی ورثہ بھی رکھتے ہیں جہاں کئی تاریخی اہمیت کے حامل مقامات ہیں۔

اِ ن اضلاع میں اتنی خوبصورت جگہیں ہیں کہ اگر ا نہیں سیاحتی نقشے پر لایاجائے تو یہ کسی بھی لحاظ سے کشمیر کے مشہور سیاحتی مقامات گلمرگ، پہلگام، سونہ مرگ، یوز مرگ جیسی جگہوں سے کم نہیں۔

سرسبز میدان، برف پوش چوٹیاں،جھرنے، پرسکون فضاجیسے حسین وجمیل علاقوں کے ساتھ ساتھ یہاں پر ٹورازم ایڈونچر (کوئہ پیمائی(،مذہبی سیاحت کے بھی وسیع امکانات ہیں۔

 ایسے میں جب موجودہ یوٹی انتظامیہ نے صوبہ جموں میں سیاحتی شعبہ کو ترقی دینے پر توجہ مرکوز کی ہے تو اِن اضلاع کے لوگوں کی بھی حکومت سے اُمیدیں بڑھ گئی ہیں۔

قدرتی حسن سے مالامال اس خطہ کی طرف بیرون ریاست وغیر ملکی سیاحوں کو کھینچ لانے کے لئے مقامی چند نوجوانوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا ہے۔

اِن میں معین منہاس، الیاس احمد خواجہ، طیعب خان عرف حیدر خان جنجوعہ قابل ذکر ہیں جوکہ دور افتادہ علاقوں کی ویڈیوز اور تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر چڑھا رہے ہیں، جنہیں دیکھ کر دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ یہ بیرون اضلاع یا ریاست سے آنے والے سیاحوں کیلئے گائیڈ کے طور بھی اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔

چند مقامی لوگ اِس خطہ کے سیاحتی مقامات پر ملکی ودنیا کے نقشے پر لانے کی کوششیں کر رہے ہیں لیکن انتظامیہ کا اِس حوالے سے کردار اب تک مایوس کن ہے۔

پونچھ ڈولپمنٹ اتھارٹی اور راجوری ڈولپمنٹ اتھارٹی کی طرف سے جن مقامات کو سیاحتی نقشہ پر لانے یا وہاں پر مطلوبہ سہولیات دستیاب رکھنے کے لئے پروجیکٹ یا پرپوزل بناکر بھی بھیجے گئے ہیں، وہ ٹھنڈے بستے میں ہیں۔ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ راجوری پونچھ کو اعلیحدہ ٹورازم سرکٹ قرار دیاجائے۔

 اِن مقامات کو یوٹی کے سیاحتی نقشہ پر لایاجائے۔ جموں میں باقاعدہ طور بیرون ریاست اور غیر ملکی سیاحوں کو اِس خطہ کی طرف متوجہ کرنے کے لئے خصوصی انتظامات کئے جائیں۔

اگر خطہ میں صرف سیاحتی شعبہ کو ترقی دی جائے تو بے روزگاری کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہوسکتا ہے اور لوگوں کی معاشی ترقی میں انقلابی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔

Recommended