آفتاب سکندر
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
استاد کی بات باتوں کی استاد ہوتی ہے۔یہ واصف علی واصف کا قول ہے جو اکثر احباب سے سننے کو ملتا ہے۔ استاد کو حدیث میں باپ کا درجہ دیا گیا ہے۔
اس مقام پر فائز ہونے کے باوجود استاد ہمارے پاس کس ذہنیت کے دستیاب رہتے ہیں اس پر حیف و ملال ہی کیا جا سکتا ہے، ہمارے ایک استاد قصہ سناتے تھے کہ ایک سپرنٹنڈنٹ کی ڈیوٹی لگی امتحانی مرکز پر تو وہاں عیسائی طلباسے بھی قرآن خوانی کا اہتمام کروایا گیا۔ یہ ہمارا نظام تعلیم ہے جو اقلیتی طلبا سے بھی بہ زورِ بازو اپنا مذہب پڑھوا رہا ہے۔
بہرکیف! سپرنٹنڈنٹ نے چاروں طلبا سے کلمہ طیبہ پڑھنے کو کہا بچے ہشتم جماعت کے تھے انہوں نے کلمہ طیبہ پڑھ دیا۔ سپرنٹنڈنٹ نے ان کے مارکس لگا دئیے اور کہا کہ بروز محشر حضور اکرم کے سامنے یہی عمل لے کر جاؤں گا کہ میں نے چار طلباسے کلمہ طیبہ پڑھوایا تھا۔
میں سوچتا ہوں کیا ایسے پڑھے لکھے جاہل اساتذہ دولھے شاہ کے چوہے پیدا نہیں کریں گے تو کیا کریں گے کیا ایسے جہلا نفسیاتی مریض نہیں ہیں،
چند روز قبل میں ایک مادرِ علمی میں گیا جہاں ایک استاد چہارم جماعت کے طلبا کے روم میں پڑھا رہے تھے، انہوں نے ڈنڈا شریف منگوا رکھا تھا اور بچوں پر غصہ نکال رہے تھے۔
مجھے پاس بٹھا کر طلبا کا جرمِ عظیم بتلایا کہ مجھے یہاں ایک کاغذ کا ٹکڑا زمین پر ملا جس پر قائداعظم محمد علی جناح لکھا ہوا تھا جس سے اسمِ محمد کی تحقیر ہوئی اس کی وجہ سے میں ان کو زود و کوب کررہا ہوں. مجھے مطلع کرکے داد طلب نظروں سے دیکھنے لگے. میں دنگ رہ گیا۔
جب ہم میٹرک میں تھے تو ہمارے استاد محترم ہم سے باقاعدہ نماز کے متعلق پوچھا کرتے تھے کہ صبح نماز پڑھی کہ نہیں۔ یہیں تک نہیں بلکہ مرغا بھی بناتے تھے۔
اس سے بڑھ کر صبح جماعت کے کمرے میں بآواز بلند درود شریف پڑھنا بھی لازم ہوتا تھا۔
مٹھیال میں ایجوکیٹر سکول کی پرنسپل مسز کلثوم نے طلبا کو قادیانی قرار دے کر فارغ کر دیا۔ا سکول سے نکال دیا۔ کیا یہ قابل تحسین اقدام ہے؟
ہم وہ لوگ ہیں جو ہمسایہ ملک میں گائے ذبح کرنے پر پابندی لگے تو ہم رونا روتے ہیں۔ بابری مسجد مسمار کر دی جائے تو اس کے لیے آہ و فغاں کرتے ہیں۔خود ہم اقلیتوں کے ساتھ کیا کررہے ہیں۔
یہ پاکستان ہے یہاں سب چلتا ہے۔ ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ نے دورانِ تقریر ایک جملہ بولا کہ ہمیں اقلیتوں بشمول احمدی برادران کے ساتھ بھائی چارے کی فضا قائم رکھنی چاہیے۔ اس پر تماشا کھڑا کر دیا گیا۔باقاعدہ عدالت لگائی گئی۔ ڈی سی آفس میں بلا کر اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ سے معذرت کروائی گئی۔
یہ حال ہے ہمارے اداروں کا پھر آگے کیا ہونا ہے میں جب یونیورسٹی میں تھا تو ایک وزٹنگ لیکچرار سے کوآپریٹو پر ملاقات ہوئی کمپیوٹر سائنس کے لیکچرار تھے چند روز بعد پتہ چلا کہ شوشل میڈیا پر ان کو قادیانی ثابت کرنے کی کمپین چلائی گئی۔ وہ بیچارہ کنٹریکٹ کے درمیان سے ہی چھوڑ کر بھاگ گیا۔
پاکستان وہ مملکت ہے جس کے وزیراعظم اقوام متحدہ کے سٹیج پر آزادی اظہار رائے سے مذہبی جذبات مجبور ہونے کا روتے ہیں جب کہ اسی ملک میں عام انسان سے لے کر گورنر پنجاب تک کو مذہب کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے. اس پر کسی کے جذبات مجروح نہیں ہوتے۔