<h3 style="text-align: center;">نڈا کے قافلہ پر حملہ: وزارت داخلہ نے مغربی بنگال کے چیف سکریٹری اور ڈی جی پی کو طلب کیا</h3>
<p style="text-align: right;">نئی دہلی،11دسمبر(انڈیا نیرٹیو)</p>
<p style="text-align: right;">مرکزی وزارت داخلہ نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے قومی صدر جے پی نڈا کے قافلے پر مغربی بنگال میں جمعرات کو پتھراؤ کے واقعہ کو بے حد سنجیدگی سے لیتے ہوئے ریاست کے چیف سکریٹری اور ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) کو پیر کے روز طلب کیا ہے۔</p>
<h4 style="text-align: right;">بنگال میں جے پی نڈا کے قافلے کی شکایت وزیر داخلہ سے کی گئی</h4>
<p style="text-align: right;"> وزارت نے اس معاملے میں جمعرات کو ہی ریاستی حکومت سے لاءاینڈ آرڈر کی صورتحال اور اس واقعہ کے بارے میں رپورٹ مانگی تھی۔وزارت داخلہ نے مزید ایک اقدام کرتے ہوئےجمعہ کے روز مغربی بنگال کے چیف سکریٹری اور ڈی جی پی کو ایک مکتوب ارسال کرکے پیر کے روز انھیں طلب کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ اقدام ریاستی حکومت کی جانب سے رپورٹ ملنے کے بعد کیا گیا ہے۔</p>
<p style="text-align: right;">قابل ذکر ہے کہ جے پی نڈا مغربی بنگال کے دو روزہ دورے کے دوسرے دن یعنی جمعرات کو جب ڈائمنڈ ہاربر جا رہے تھے تو ان کے قافلے پر پتھراؤکیا گیا۔</p>
<p style="text-align: right;">بدھ کے روز مغربی بنگال یونٹ کے صدر نے وزارت داخلہ کو خط لکھ کر نڈا کی سیکورٹی کے سلسلے میں برتی گئی لاپرواہی کا معاملہ اٹھایا تھا۔ مرکزی وزارت داخلہ امت شاہ نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ مرکز اس واقعہ کی سنجیدگی سے نوٹس لے رہا ہے۔</p>
<h4 style="text-align: right;">وزیر داخلہ نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے اس کی جانکاری دی</h4>
<p style="text-align: right;">انہوں نے ٹویٹ کیا، ”بنگال میں بی جے پی کے قومی صدر جگت پرکاش نڈا پر ہوا حملہ بہت ہی قابل مذمت ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔</p>
<p style="text-align: right;">مرکزی حکومت اس اسپانسرڈ حملے کو مکمل سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ بنگال حکومت کو اس حملے کے لیے ریاست کے امن پسند عوام کو جواب دینا ہوگا۔“</p>
<p style="text-align: right;">امت شاہ نے مزید کہا، ”ترنمول حکومت میں بنگال، ظلم، انارکی اور اندھیرے کے زمانے میں جا چکا ہے۔ ٹی ایم سی کی حکومت میں مغربی بنگال کے اندر جس طرح سے</p>
<p style="text-align: right;">سیاسی تشدد کو ادارہ جاتی بنا کر انتہا پر پہنچایا گیا ہے، وہ جمہوری اقدار میں یقین رکھنے والے تمام لوگوں کے لیے تکلیف دہ بھی ہے اور تشویشناک بھی۔“</p>.