دریاباد،بارہ بنکی(ابوشحمہ انصاری)
بزم رہبر دریاباد کے زیر اہتمام مدرسہ معین الاسلام کے ماجدی ہال میں غیر طرحی شعری نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں معروف شاعر طارق انصاری سعادت گنجوی کے سانحہ ارتحال پر تعزیت پیش کی گئی اور ان کے لئے دعائے مغفرت کی گئی۔
اس موقع پر اپنے تعزیتی خطاب میں استاذ الشعرارہبر تابانی دریابادی نے کہا کہ مرحوم طارق انصاری سے ہمارے بہت دیرینہ تعلقات تھے اور وہ میرے ہم عمر تھے،وہ ایک قادر الکلام شاعر اور بہترین انسان تھے،انہوں نے ہمیشہ مبتدی شاعروں کی رہنمائی کی یہی وجہ ہے کہ آج ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔اس کے علاوہ عمران علی آبادی،کلیم طارق اور اسلم سیدنپوری نے بھی تعزیتی کلمات کہے۔
اس کے بعد استاذ رہبر تابانی کے شاگرد رشید کشش ہوشیار پوری کے شعری مجموعہ “منزلوں سے دور کی” کا اجرا کیا گیا۔اس کے بعد غیر طرحی نششت کا آغاز حافظ محمد حارث کی نعت پاک سے ہوا،جس کی سرپرستی استاذ الشعرا رہبر تابانی دریابادی،صدارت قاری شکیل احمد فرقانی نے اور نظامت عقیل ضیانے کی۔نشست کے پسندیدہ اشعار قارئین کی نذرہیں۔
زخم مرہم درد درماں غم خوشی آنسو گہر
آدمی باظرف ہو جائے تو کیا ہوتا نہیں
رہبر تابانی دریابادی
مصور ہوں کئی خاکے ہیں میرے ذہن کے اندر
مگر میں چاہتا ہوں تم مرا شہکار ہو جاؤ
کلیم طارق
دور حاضر کی بڑی تلخ یہ سچائی ہے
سچ ہے شرمندہ مگر جھوٹ کی بن آئی ہے
عمران علی آبادی
ضیا سچ بولنا حق بات کہنا تیری محفل میں
اگر یہ جرم ہے تو جرم یہ سو بار کرنا ہے
عقیل ضیا
خار نفرت کے یہ راہوں سے ہٹاتے چلئے
پھول اخلاص و محبت کے بجھاتے چلئے
اسلم سیدنپوری
جہاں پیار ہے وفا ہے جہاں خوشنما فضا ہے
وہاں سر کشی عداوت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی
راشد ظہور سیدنپوری
خدا پر ہے بھروسہ اے مرے بھائی اگر اپنا
دوا ہر دور میں تجھ کو دکھائے گی اثر اپنا
شبیر دریابادی
کس منھ سے تجھے دختر اسلام کہوں میں
افسوس ترے سر پہ دوپٹہ بھی نہیں ہے
اثر سیدنپوری
پیروی کچھ اس طرح کی ظالمان وقت نے
قتل کا الزام خود مظلوم کے سر آگیا
عظیم علی آبادی
اگر چلنا ہو میرے ساتھ پیچھے مڑ کے مت دیکھ
مجھے ویرانہ ہستی کو پھر گلزار کرنا ہے
محضر ہاشمی
رکھ دیئے جوش جنوں نے مرے منزل پہ قدم
ہوش والے مجھے دیکھا کئے حیرانی سے
جنید علی آبادی
آشیانے جھونپڑی کچے مکاں چھپر کے لوگ
غم زدہ ہیں اس لئے طوفان کے آثار ہیں
ظفر دریابادی
اس موقع پر مولانا شکیل احمد ندوی،مولانا محفوظ الرحمٰن ندوی،شیخ اظہر علی،شکیل حقانی،حافظ محمد عالم،حافظ عبد الرحمٰن بطور خاص موجود تھے۔نشست کے اختتام پر آئندہ ماہ کا طرح مصرعہ “جب ضمیروں کی آواز مر جائے گی” کا اعلان کیا گیا۔