معروف تھنک ٹینک ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے زیر اہتمام شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت اور خدمات پرمنعقد ہورہے دوروزہ سمینار کے افتتاحی اجلاس میں معروف عالم دین مولانا خالدسیف اللہ رحمانی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ایک بھولی بسری شخصیت پر سمینار کا انعقاد قابل ذکر ہے۔
مولانا شاہ عبد العزیز ایک ایسے علمی خانوادہ کے سپوت تھے جنہوں نے علم حدیث سے ہندوستان کا رشتہ جوڑا، جب معقولات لوگوں کیلئے مرکز توجہ بن گیا تھا اور قرآن وحدیث سے لوگ دور ہوگئے تھے اس وقت انہوں نے علم دین سے لوگوں کو جوڑا۔
ان کی درس گاہ منقولات کا مرکز تھی اور صحاح ستہ وہاں پڑھائی جاتی تھی۔ ہندوستان میں حدیث کی جتنی سند ملتی ہے اور جتنے مکاتب فکر ہیں سب کا سلسلہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے ملتا ہے اور اس کے بعد آگے بڑھتی ہیں۔
ہندوستان میں جو مدارس ہیں ان کی سند شاہ اسحاق رحمۃ اللہ علیہ اور فضل رحمان گنج مرادآبادی رحمۃ اللہ سے ملتی ہے۔ دونوں کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے حدیث کی اجازت تھی اور یہی اس وقت ہندوستان میں حدیث کی سند ہے۔
اس خاندان کا سب سے بڑا فیض یہ ہے کہ لوگ جو علم حدیث سے دور ہوگئے تھے اور معقولات پر بھروسہ کرلیا تھا اس کا انہوں نے خاتمہ کیا اور علم حدیث سے جوڑا۔ اس خاندان نے قرآن سے بھی لوگوں کو جوڑا جس کی شروعات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے کی تھی۔