اس تاریخ کا ہندوستان کی خلائی سائنس سے گہرا تعلق ہے۔ اسرو نے 18 دسمبر 2014 کو ایک نئی کامیابی کی کہانی لکھی۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ 15 اگست 1947 کو آزادی ملنے کے بعد ہندوستان کی سیاسی قیادت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ملک کے عوام کو دو وقت کا کھانا فراہم کرنا تھا۔
شروع میں ہندوستان کے پانچ سالہ منصوبوں کا بنیادی مقصد ہندوستان کو نچلی سطح پر مضبوط کرنا بھی تھا۔ لیکن حکومت خلائی سائنس کی ترقی کے حوالے سے تقریباً دو دہائیوں تک سست رہی۔
ستر کی دہائی کے وسط میں بھارت نے یقینی طور پر ثابت کر دیا کہ اگرچہ اسے زمین پر بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن اب وہ خلا میں چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہے۔ بھارت جس نے منگل یان، چندریان، موسمیاتی سیٹلائٹ لانچ کیے ہیں، 2014 میں ثابت کر دیا کہ وہ اب امریکہ اور روس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
اسرو نے جی ایس ایل وی مارک -سوم کو 18 دسمبر 2014 کو شام 5:28 پر آندھرا پردیش کے سری ہری کوٹا سے لانچ کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اسرو کی اس کامیابی پر ملک کے سائنسدانوں کو مبارکباد دی۔
یہ ملک کا سب سے طاقتور اور اب تک کا سب سے بھاری سیٹلائٹ (راکٹ جی ایس ایل وی مارک سوم) تھا۔ اسرو کے سابق چیئرمین کے. رادھا کرشنن نے بھی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ لانچ ایک بڑا سنگ میل ہے کیونکہ اسرو لانچ سیٹلائٹ کی صلاحیت کو 2.2-2.3 ٹن سے 3.5-04 ٹن تک تقریباً دوگنا کر رہا ہے۔